Saturday, May 30, 2015

A gripping contemporary tale: Review of Punjabi Novel


A gripping contemporary tale: Review of Punjabi Novel


The publication of this novel is a transgressive event in the world of letters in Pakistan. The novel successfully blurs the boundaries between time and space, fiction and nonfiction, poetry and prose, social facts and historiography. The surface story in this debut novel is set in Lahore and narrates the story of Hussain and Mahboob but it is also a history of Lahore and the region in which Lahore exists. Written in a stream-of-consciousness style, the novel is also a social document because, through the thoughts of its characters, it creates a catalogue of historical events, social movements, and political upheavals that influence the fictional lives. The life story of Madho Lal Shah Hussain, originally two Sufi saints which are referred by one name and who are buried in Lahore, is the source of inspiration but it has been transformed into a contemporary tale. It is a difficult task to transform a historical life into a metaphor for the present but Nain Sukh has accomplished it with a deceptive sense of ease. The carefully honed analytical and creative acumen of the author exhibits an obsession with the social and political history of South Asia as well as a Sufic detachment with this post-lapsarian world. The result is a book that should be a mandatory reading for anyone who wants to understand Lahore and Pakistan with everything sordid, censored, and sublime included. The effect on the reader is very unsettling at the beginning because this method of mixing facts, fiction, and poetry is new in Punjabi but not in English, which has a long history of nonfiction novels or even faction (fact+fiction = faction). The Punjabi literary landscape is already abuzz with the debate whether this book is a novel or not. But because there are no universally acceptable definitions of what the novel is, the readers should enjoy the book and the stories within the story without worrying about its genre. If House of Leaves by Mark Z. Danielewski, The Taqwacores by Michael Muhammad Knight, and Infinite Jest by David Foster Wallace (a novel with 96 pages of footnotes) are novels, this book is definitely a novel. But it is not just a novel. It is a book that deserves to be noted as a social document as well. For this, Nain Sukh deserves major kudos.

read complete review at


Friday, May 29, 2015

Education Budget & Provinces?


Education Budget & Provinces


After 18th amendment it is up to provinces to ensure quality education but the case is not up to mark. In comparative analysis province of the Punjab is doing well regarding missing facilities yet standard of education still needs greater attention. Bill regarding private education still unattended in Punjab cabinet largely due to obvious reaction from tiny but strong elite school lobby. Opposition leader in Punjab assembly and other opposition parties failed to raise the issue of regularization of private sector as they too have links with elite school owners.  Equal standards in education are need of the hour but all the 4 provincial governments are reluctant to settle it. Read and unlearn

 شعبہ تعلیم کی کل ذمہ داریاں اب صوبوں کے’’ ناتواں کندھوں‘‘ پر ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں صوبوں نے اس ضمن میں کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں اس بارے مفصل غیر جانبدار تجزیہ تاحال موجود نہیں۔ البتہ مؤقر اخبارات، چینلوں اور تعلیمی بندوبست پر نظر رکھنے والے چند ایک ادارے اعداد و شمار شائع کرتے رہتے ہیں۔ صوبائی خودمختاری کا راگ الاپنے والی قوم پرست سیاسی جماعتیں اور اس ضمن میں ’’کھپ‘‘ ڈالنے والی مشہور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) تو ’’سو‘‘ رہی ہیں البتہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ ماسوائے پنجاب تعلیمی صورتحال میں باقی تینوں صوبوں کے حالات بدستور لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ گو کہ مقتدر میڈیا میں بہت سے جانبازمسلم لیگ ن کے ’’بغض‘‘ میں ہر دم پنجاب کی تعلیمی صورتحال کو کمتر اور پسماندہ بتانے کے لیے صفحوں پر صفحے کالے کرتے ہیں مگر تعلیمی اعداد و شمار ہمارے ان اعلیٰ اذہان کی ’’نو یکلی اختراحوں‘‘ پر پانی ڈال دیتے ہیں۔ تعلیمی بجٹ کی جب بھی بات ہوتی ہے تو سارا زور بجٹ کی رقم کو بڑھانے پر رہتا ہے۔ - 
اہور،کراچی اور اسلام آباد کی تعلیم نجی سکولوں کے سپرد کردی گئی ہے تو پھربڑے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت نہیں۔شکست خوردہ ذہنیت کے زیر اثر سرکاری سکولوں کی معیار تعلیم کو بہتر کرنے کی بجائے یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ جب تک وزیرتعلیم،سیکرٹری تعلیم کی اولادیں سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گی تب تک معیار تعلیم ٹھیک نہ ہوگا۔اگر وزیرتعلیم یا سیکرٹری تعلیم کی اولاد پڑھائی مکمل کرچکی ہو تو پھر آپ کیا کہیں گے؟۔اچھے اچھے دانشور نماشہزادے بھی سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی مہم کی بجائے لوگوں کو محض دلفریب نعروں میں مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ماضی میں سنٹر ماڈل سکول کا معیار بلند تھا اس لیے وزیروں اور بیورو کریٹوں کے بیٹے بھی یہاں آتے تھے۔گورنمنٹ کالج لاہور یا سنٹر ماڈل سکول کا معیار اس لیے بلند نہیں تھا کہ وہاں وزیروں یا سیکرٹریوں کے بیٹے داخل ہوتے تھے بلکہ بہتر معیارتعلیم کی وجہ سے اشرافیہ کے بچے بھی انہی اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ آپ سرکاری سکولوں کا معیار بہتر کریں تو الٹی گنگا بہنی بند ہوجائے گی مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔سوال تعلیم کو سیاست سے جوڑنے کا ہے کہ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں ، ضلعی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔معیار تعلیم کے ضمن میں جو بات ہمارے تحقیقی ادارے اکثر بھول جاتے ہیں اس کا تعلق مادری زبانوں سے ہے ۔دنیا بھر کے ماہرین مادری زبانوں میں پرائمری تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں مگر ہمارے تعلیمی ماہرین بوجوہ اس اہم مسئلہ کو زیرالتواء ہی رکھنا چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی کے مراد راس، پیپلز پارٹی کے جہانگیر وٹو اور ق لیگ کی لاہور کی سیکرٹری اطلاعات کچھ تیاری کرکے آئے ہوتے تو قمر السلام صاحب کو بھی جم کے جواب دینے پڑتے مگر صورتحال اس کے برعکس رہی۔البتہ نجی سکولوں کے حوالہ سے قمر السلام بھی لاجواب ہی رہے کہ پنجاب میں نجی سکولوں کے حوالہ سے بنایا گیا قانون تاحال ’’سردخانہ‘‘ میں پڑا ہے۔پی ٹی آئی والے بھی اس پر ’’کھپ‘‘نہیں ڈالیں گے کہ قصوریوں کی ناراضگی کا خطرہ وہ بھی نہیں لے سکتے۔پیپلز پارٹی کے جہانگیر وٹو نے ایک شدنی چھوڑ کر حاضرین کو محظوظ کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور اک لندنی این جی او کو پنجاب کے تمام سرکاری سکول دلوانے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ جب ان کی بات مانی نہیں گئی تو انھوں نے استعفیٰ دے ڈالا۔اب پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اس لندنی این جی او کے ذریعے خیبر پختونخواہ کے پسماندہ سرکاری سکولوں ہی کو ٹھیک کروالے۔جب تک ماڑے اور اشرافیہ کے نجی سکولوں کے حوالے سے ہم کوئی قانون نہیں بناتے اس وقت تک ’’یکساں معیار تعلیم‘‘ کا مسئلہ ہمارا منہ چڑاتا رہے گا۔تاہم سٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ انجینئر قمر السلام کا اصرار تھا کہ پنجاب سرکار نجی سکولوں کو مجبور کرچکی ہے کہ وہ لائق اور غریب بچوں کا 10فیصد کوٹہ مختص کریں۔یہ وہی ناقابل عمل تجویز ہے جو1979کی تعلیمی پالیسی میں منظور کی گئی تھی۔پتہ نہیں کیوں ہم دلفریب اور ناقابل عمل تجاویز پر مغزماری کرتے رہتے ہیں؟آئی سیپ جیسے ادارے کو چاہیے کہ وہ نجی سکولوں کے حوالہ سے بھی مکمل اعداد و شمار سامنے لائیں۔فیسوں،سرکاری مراعات اور بچوں و اساتذہ کی تعداد کے ساتھ ساتھ نجی سکولوں کے معیار تعلیم کا بھی احاطہ کریں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آجائے گا۔نجی تعلیم کا جتنا ’’رعب‘‘ ہے وہ ہوا ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے لیے امداد دینے والے بیرونی ادارے اوراشرافیہ کے سکول بنانے والے مقامی سیٹھ کسی ایسی تحقیق پر خوش نہیں ہوں گے نہ ہی آزاد میڈیااس کو اخبار یا چینل کی زینت بنائے گا۔نعرے لگانا آسان مگر تعلیم کے الجھے ہوئے مسئلہ کی گتھی سلجھانہ ذرا ٹیڑھا مسئلہ ہے۔اگر ان مسائل پر کوئی جرأت مندانہ فیصلے کرسکتا ہے تو وہ اس ملک کی سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔آئی سیپ کاکام قابل قدر کہ وہ سیاسی جماعتوں ہی کو اس کام میں ساتھ جوڑ رہا ہے۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11683#sthash.dVttV4s5.dpuf

Tuesday, May 26, 2015

Politics of direct & indirect taxes: Budget 2015-16

Politics of direct & indirect taxes
Perception is far misleading than reality
Budget 2015-16

There is a misleading perception in Pakistan and according to this large numbers of Pakistanis are not giving taxes. In reality if we able to map FBR figures regarding tax collection of 2014-15 we will be astonish to know that more than 60% tax collection is from indirect sources. Only 9, 000, 00 people are in the direct tax network yet more than 14, 000, 0000 Pakistanis are paying taxes under indirect taxation. read and unlearn



تازہ بجٹ (2015-16) کی مقدس دستاویزات کابینہ میں منظوری کے مراحل سے گذر کر جلد میڈیا کی زینت بننے کو تیار ہیں۔ عالمی بنک سے حاصل کردہ قرضوں کی قسط کی وصولی کو ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹ حضرات سیاسی و معاشی مسائل کو تکنیکی بنیادوں پر حل کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ حالیہ فیصلہ کے مطابق یکم جولائی سے ہر شناختی کارڈ کے نمبر کو قومی ٹیکس نمبر یعنی این ٹی این قرار دے دیا جائے گا۔ یوں راتوں رات ٹیکس نیٹ کاغذوں میں 9 لاکھ سے بڑھ کر قریباً دس، 12 کروڑ جاپہنچے گا۔ ایسی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کو ’’سٹیس کوء‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی نہ سانپ مرے، نہ لاٹھی ٹوٹے مگر ’’کھڑاک‘‘ بہت پیدا ہو۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ٹیکس والے جب کسی کے پیچھے پڑجائیں تو پھر اس کی سات نسلیں بھی رشویتں دے دے کر سال ٹپاتی ہیں وہاں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اس فیصلہ کا سیاسی خمیازہ یہی سرکار بھگتے گی۔ بنیادی سوال تو یہ ہے کہ کیا پاکستانیوں کی کثیر تعداد واقعی ٹیکس نہیں دیتی؟ یہ وہ گمراہ کن تاثر ہے جسے بڑھانے میں آزاد میڈیا بھی پیش پیش ہے اور کالم نویسوں نے بھی اس حوالے سے بہت سے صفحے کالے کیے ہیں۔ اس وقت 9لاکھ لوگ براہ راست تھوڑا یا مناسب ’’براہ راست‘‘ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ 14 کروڑ سے زائد لوگ بالواسطہ ٹیکسوں کی عفریت کا شکار ہیں۔ اندھیرے میں تیر چلانے کی بجائے بیوروکریٹوں اور ٹیکنو کریٹوں کی تجاویز چھوڑ کر اگر حکومت چھوٹے دکانداروں، کاروباری حضرات، کسانوں اور زمینداروں کے ساتھ بیٹھ جائے تو اس مسئلہ کا حل نکلنا چنداں مشکل نہیں۔ مگر اس سے پہلے سرکار کو اس بنیادی مفروضہ کو رد کرنا ہوگا جس کے مطابق عام پاکستانیوں کو یہ غلط بات سمجھائی جاتی ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ چند دہائیوں سے ہماری سیاست میں ٹیکس، ٹیکس کا شور برپا ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جو پاکستانی ٹیکس نہیں دیتا وہ چور ہے۔ چینلوں پر دن رات ایسے پروگرام نشر ہوتے ہیں جن میں ٹیکس چوری بارے پروگرام کو چلانے والے اپنے ہی میڈیا گروپ کے مالکان کے ٹیکس کا تو کوئی حوالہ نہیں دے سکتے مگر سیاستدانوں کو اس ضمن میں نشانہ خاص بنایا جاتا ہے۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ آخر میں ٹیکس چوروں کی حمائیت کیوں کر رہا ہوں؟ مگر معاملہ یہ نہیں بلکہ یہ تحریر اس تاثر کے خلاف ہے جسے پچھلے چند سالوں سے جان بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے۔ اس تاثر سے کیا مقاصد پورے ہورہے ہیں؟ اور کون اس کے پیچھے ہے اس بارے آپ کو خود بخود اندازہ ہوجائے گا۔ اس تاثر کو پھیلانے میں اخبارات اور چینلوں کا ہاتھ بھی ہے اور یہ بات افسران اعلیٰ اور سرکار کے ساتھ کاروبار کرنے والے ٹھیکہ داروں کو بھی من بھاتی ہے۔ یہ بات تو چینلوں پر بڑے بڑے اینکر ڈھٹائی سے کہتے رہتے ہیں کہ اس ملک میں محض چند لاکھ لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ اس طرح کی خبروں سے صاف لگتا کہ یہ چند لاکھ پاکستانی ہی ’’معتبر اور عزت دار‘‘ ہیں۔ 20 کڑوڑ کے ملک میں اگر نو لاکھ لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں تو ایف بی آر ٹیکسوں میں 225 ارب روپے ہر سال کیسے اکٹھے کرتا ہے ؟ کیا اتنی کثیر رقم محض چند لاکھ لوگ دے رہے ہیں؟ کیا اس سے بڑا جھوٹ بھی کچھ ہوسکتا ہے؟ حکومت ہر سال اپنے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے یہ اقرار کرتی ہے کہ پچھلے سال ٹیکسوں سے کتنی رقم وصول ہوئی۔ اس طرح کے دعوے کرنے والے اگر ایف بی آر کے اعدادشمار ہی دیکھ لیں تو انہیں اپنے دعوؤں کی سچائی بارے خود بخود معلوم ہو جائے گا۔ اگر آپ کو اصل حقائق معلوم کرنے ہیں تو سب سے پہلے ٹیکسوں سے وصول ہونے والی رقم کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف صاف نظر آنے لگے۔ ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقم کا ایک حصّہ تو ان سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے آتا ہے جن کا ٹیکس تنخواہ دینے سے پہلے حکومت خود ہی کاٹ لیتی ہے۔ جتنی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے اسی حساب سے ٹیکس بھی زیادہ ہوتا ہے۔ سرکار سے لمبی چوڑی تنخواہیں وصول کرنے والے ٹیکس تو مجبوراً کٹواتے ہیں مگر بعدازں ’’گھپ‘‘ بھی بہت ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ادارے یا ٹھیکے دار ہیں جو سرکار سے لمبے چوڑے کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے بلوں پر بھی ادائیگی کے وقت حکومت خود بخود ٹیکس کاٹ لیتی ہے۔ بادل ناخواستہ ان ٹھیکہ داروں کو بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بس ٹیکس دینے کے بعد یہ بھی’’ گھپ ‘‘ڈالنے والے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ مجبوراً ٹیکس دینے والوں کی دواقسام ہیں۔ جونہی آپ کو ان دونوں بارے معلوم ہوگا تو آپ بھی وہی کہیں گے جو میں کہہ رہا ہوں۔ ٹیکس دینے والوں کی ایک قسم تو وہ ہے جو لمبی چوڑی رقم لینے کے بعد آٹے میں نمک سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو سرکار سے ایک روپیہ بھی نہیں لیتے مگر ہر سال اپنی آمدنی کی کثیر رقم ٹیکسوں میں دے ڈالتے ہیں۔ موٹی تنخواہیں لینے والے سرکاری ملازمین، سرکار سے لمبا چوڑا کاروبار کرنے والے اور اس قماشکے دیگر نجی گروہوں یا کمپنیوں کا تعلق ان میں ہوتا ہے جو ٹیکس تو دیتے ہیں مگر اس کے عوض لمبی چوڑی رقمیں بھی بٹورتے ہیں۔ مگر وہ لوگ کون ہیں جو سرکار کو اپنی آمدنیوں میں سے کثیر رقم ٹیکس کی شکل میں دیتے ہیں مگر سرکار سے نقد یا جائیداد خصوصاً پلاٹوں کی شکل میں کچھ نہیں لیتے۔ یہ پاکستان کے عام عوام ہیں کہ ان کے متعلق جاننے سے پہلے ذرا اس حساب کتاب پر نظر ڈالیں۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11564#sthash.8ineTdVe.dpuf

Sunday, May 24, 2015

Pak-India: The eerie twins..The News On sunday


Pak-India: The eerie twins

In 1924, when Mustafa Kamal abolished the institution of Khilafat, people like Iqbal, Annie Besant and Jinnah were proved to be right. Interestingly, 95 years on, we still have not analysed that pitfall and in the Indo-Pak textbooks Khilafat and noncooperation movements are taught as heroic movements.

one can get the book at www.readings.com.pk
The Longest August — The Unflinching Rivalry Between India and Pakistan
Author: Dilip Hiro
Publisher: Nation Books, New York, 2015
Pages: 521
Price: Rs 1395
Available: Readings, Lahore

Pakistan and India are twin countries born out of the June 3 [1947] Plan that got legitimacy from the mother of all parliaments (UK assembly) in July 1947. The deadline for the completion of the birth period was set as June 1948; however the twins were born much before it. What was the pressure behind that premature birth? No one has inquired that as yet.
However, it is a reality that after signing the Atlantic Charter on August 14, 1941 Britain had continuously reported to Washington regarding the decolonisation process. After two unsuccessful attempts, finally all stakeholders had to sign the June 3 Plan.
The link
Dilip Hiro’s latest book The Longest August… is another proof of the maturity among the historians of the emerging independent countries, and he joins the list that includes people like Romila Thapar and Ayesha Jalal.
Born at Larkano, Sindh in mid-1930s, Hiro is the author of many books on South Asian, Central Asian and Middle Eastern affairs. The Longest August… reminds me of the couplet of the great Punjabi poet Ustad Daman, written in the context of partition:
Lali akhaan di payee dasdi hai
Roye tusi vi ho, roye assi vi haan
[The redness in our eyes testifies that both you and I have cried]
The writer tries to unfold the hidden politics of the unflinching rivalry between the twins and comprehensively covers both the pre- and post-partition developments. Although the first 150 pages are a good addition to the partition literature, he has missed the Gadar Movement fallouts, splits in Congress and Muslim League (Swaraj Party and Shafi League), C.R. Das formula, Iqbal’s Allahabad address, the Bhagat Singh case and Neta Ji’s [Subhash Chandra Bose] revolt.
Hiro has recorded many unusual events such as the conversion of Harilal Gandhi (Son of Mahatma Gandhi) to Abdullah Gandhi and the anxiety of Mahatma, Azad’s clever political decision to support Khizar Hayat Tiwana in the Punjab after the 1946 election, the three war medals from the Empire to Mahatma till 1915, and the confession of British Prime minister Clement Attlee regarding the deciding punch of Subhash Chandra Bose (he weakened the very foundation of British Empire in India).
He has pinpointed the three pitfalls of Congress in the pre-partition politics namely: the Nehru Report, the solo flight of Congress after the 1937 election and the rejection of Cabinet Mission Plan. In this regard, his analysis is close to Kanji Dwarkadas, H.M. Seervai and Jaswant Singh (all Indians), but he has given many new references too.
Since 9/11, religious extremism has become a central theme for discussion. The chapter ‘Gandhi’s Original Sin; Injecting Religion Into Politics’ is a good example to understand the roots of religious extremism in South Asia. Although he has not mentioned the Rowlett Committee’s famous sedition report of 1918, which threw light on the birth of religious nationalism in the late 19th century by the nexus of European returned Lal Bal Pal (Lala Lajput Rai, Bal Gangadhar Talik and Bipan Chandra Pal) under the banner of the One Nation Theory, he has boldly challenged the politics of Mahatma. He has rightly pointed out that the Mahatma believed in religious nationalism and gives the reference of Gail Minault of Columbia University who recorded Mahatma’s 1915 address in which he said: “Politics cannot be divorced from religion.”
At that time the Ali brothers were in jail from where they had endorsed Gandhi. So, both were natural allies in future. Ali brothers remained in jail for four years but, unlike Gadari revolutionaries and the prisoners of Silk Conspiracy, they were allowed to maintain censored correspondence with friends and allies. Maulana Johar started using the symbol of Muslim monarchy in the same prison.
In 1909, Mahatma wrote a book Hind Swaraj in which he argued that India was one nation long before the Raj. To support his argument, he penned all three Hindu references; Shevetbindu Rameshwar, Juggernaut and Hardwar. There was no place for Buddhists and Muslim shrines in it.
During the Khilafat Movement, he smartly engaged Maulana Abdul Bari, Ali Brothers, Deobandi Ulema and injected religious nationalism into the freedom struggle. Mahatma used a lethal combination of religion and nationalism in a cocktail of unconstitutional and anti-imperialist struggle and called it Satyagraha. Allama Iqbal, Mian Shafi, Annie Besant, Mian Fazl-e-Hussein and Muhammad Ali Jinnah were able to sniff it in time and remained aloof from the ‘super revolutionaries’.
In the book, the writer has reproduced the statement of Jinnah: “This weapon (non-cooperation) will not destroy the British Empire.” He predicted, “it is neither logical nor is it politically sound or wise, nor practically capable of being put into execution”.
The show finally ended in frustration when in February 1922, a mob set a police station ablaze and 21 police officers were “hacked to pieces, their bodies were fed to the raging flames”. It was the notorious Chaura Chauri incident after which the Mahatma had to call off his dharna politics. As Mahatma announced it unilaterally, without consulting his fellows, so Maulana Abdul Bari, Motilal Nehru, and C. R. Das criticised him, subsequently leaving the Congress. Swaraj Party was created and until the end of 1930 they did not listen to Mahatma and Central Khilafat Committee and participated in successive provincial elections in India.
In 1924, when Mustafa Kamal abolished the institution of Khilafat, people like Iqbal, Annie Besant and Jinnah were proved to be right. Interestingly, 95 years on, we still have not analysed that pitfall and in the Indo-Pak textbooks Khilafat and noncooperation movements are taught as heroic movements.
In his post partition analysis, the writer talks about the use of tribal lashkars in Kashmir by Liaqat Ali Khan and some army officers without informing Jinnah in late 1947. However, in 1950 when Liaqat Ali had to appoint the new Army Chief, he was reluctant to trust the same people who were his partners in arms during the Kashmir War. Thus, he appointed Gen Ayub, who was posted in East Pakistan during the Kashmir War of 1947. Playing with the Kashmir issue remains vital not only at the regional level; it has also affected internal politics in India and Pakistan since 1947. Hiro accepts that Kashmir is still the core issue between the two states and there is no sign of progress toward its resolution.
According to Hiro, there was a tangible increase in the role of intelligence networks in the post 1965 scenario. In September 1967, Indira Gandhi established RAW initially as a wing at Intelligence Bureau (IB) but reporting directly to the prime minister. It immediately acquired the status of Special Frontier Force, a secret army of India trained by CIA five years back. By 1968, it had become an independent agency with the help of CIA. At the same time, the prime minister instructed RAW’s chief to cultivate links with Mossad. The reference of this information comes from the book by famous RAW officer B. Raman. According to the writer, at that time, India had no diplomatic relations with Tel Aviv. So it was a total departure from the pro-Palestine policy of her father Nehru.
Sindh appears to run in the writer’s veins and he rightly mentions the smart move of Z.A. Bhutto during Simla Accord 1972 to normalise ties between the two countries. He claims that with the help of China, Pakistan tested an atomic bomb assembled in Pakistan in early 1984. While analysing nuclear competition, he also mentions how Narasimha Rao’s plan to test “three nuclear devices in late 1995 was thwarted by Bill Clinton”.
The writer knows it in his heart that without resolving Kashmir, Pakistan and India cannot move forward and in this regard he appreciates the efforts of prime minister Nawaz Sharif so far. In the preface, he mentions the South Asia Free Trade Treaty which specifies the reduction of customs duty on all trade goods to zero by 2016 for all eight countries. It may be an opportunity for all SAARC countries but for now the ball is in India’s court.

Friday, May 22, 2015

Struggling Democracies: Courts & the first democratic transition in Pakistan

Struggling Democracies

 Courts & the first democratic transition in Pakistan

Judicial Commission will listen all and it takes time yet the case of 18th and 21st amendment is a test case for Judges. 17 member bench is listening the case and it may set the future agenda. Last two days proceedings as reported in media have interesting remarks. The story of objective resolution is under fire and court is ready to unfold it. Since 1985 Objective resolution is part of the constitution yet in 1973 original document it was in preamble. Zia did it as it was part of 8th amendment.  Interestingly, due to Black & White politics our intellectuals & media supermen failed to unfold many hidden sides of O.R politics. Some of them even support unrealistic stand of Congress Party Pakistan (First opposition party in constituent assembly which had not a single elected Muslim member). Many of us do not know the important role played by the First finance Minister Ghulam Muhammad. Below the belt role of Altaf Hussein, a major power broker and Editor Dawn is also important to unfold things.  In spite of all odds O.R remained in preamble due to a compromised formula.  Out of 75 members of constituent assembly only 31 members (more than 60% members remained aloof) attended that historical session. No one inquired about it? It was due to compromised formula. Since approval of Objective Resolution some forces have an unfinished agenda against the elected tier. The agenda suits not only to Non-elected elite in Pakistan but also used many times by international power brokers.  Supremacy of the parliament remains there as core issue since 1949 in Pakistani politics. During these times people witnessed three constitutions; one by a dictator (General Ayub Khan) and two by National Assemblies (1956 & 1973). Unlike 1956 & 1962 the 1973 constitution was a consensus document as all political parties endorsed it. In all the three constitutions Objective resolution remained in the Preamble.  Liaqat ali Khan, Sir Zafrullah, Mollana Shabbier Usmani, Mollana Maudoodi, Abdur Rab nishtar, Kh Nazimudin, Ch Muhammad Ali, Fazul ur Rahman , Umar Hayat Malik, Ch Nazier and Moulvi Tamizudin along with ICS officers wanted to use Objective Resolution in their favor but they failed to realized that Non-elected elite would use it against them too. Read and try to unlearn misleading history
The larger question remains in discussion is regarding future role of Courts. Can SC strke down an amendment in constitution? or court should return the ball in assembly for review as the case happened in Cess case regarding Gas tax. The debate of spirit of the constitution or basic structure of the constitution may mislead again yet Court can review an amendment so that constitution will remain free from contradictions. 


18ویں اور 21ترمیم کے حوالہ سے جاری یہ مقدمہ اپنی ہیئت، اہمیت اور تشکیل کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 17 رکنی بینچ کے روبرو یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا اسمبلی آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے؟ برطانوی نظام کی مثالیں تو ہمارے ہاں بہت دی جاتی ہیں مگر برطانوی پارلیمنٹ کی طاقت کے بارے اک تاریخی جملے کو بوجوہ یاد نہیں رکھا جاتا۔ اس جملہ کے مطابق ا گر برطانوی پارلیمنٹ ایک مرد کو عورت قرار دے دے تو اسے عورت ہی سمجھا جائے گا چاہے اس میں جسمانی تبدیلیاں رونما نہ ہوئی ہوں۔ اس جملہ کا لفظی مطلب ڈھونڈنے کی بجائے اگر اس کی روح پر غور کریں تو یہ پارلیمنٹ کی بے پناہ طاقت ہی کی طرف اشارہ ہے جو جمہوریت کی روح ہے۔ - 

کچھ سوال پہلے دن سے ہمارے ہاں واضح ہیں مگر ہم میں سے بہت سے ان حقائق کو یا تو بھول جانا چاہتے ہیں اور کچھ لاعلم بھی۔1948 میں امریکی ریڈیو کے نمائندے نے قائداعظم سے سوال کیا تھاکہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ آئین بنانا آئین ساز اسمبلی کا کام ہے اور قانون کی رو سے وہی یہ کام کرے گی۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دِنوں میں خان آف قلات یار محمد خان قائداعظم کی خصوصی دعوت پر ان کے گھر 22 دن تک رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک دن قائداعظم سے کہا کہ’’ آپ خود پاکستان کا آئین بنا دیں اور یہاں اسلام نافذ کر دیں۔ میں نے بھی اپنی ریاست قلات میں 1944 سے اسلام نافذ کر دیا ہوا ہے۔‘‘یہ بات سن کر قائداعظم مسکرائے اور بولے، ’’پاکستان ایک وفاقی ملک ہے کوئی ریاست نہیں۔ آپ تو اپنی ریاست کے مختارِ کل ہیں مگر میں اک وفاقی مملکت کا سربراہ ہوں جسے ایک اسمبلی چلاتی ہے۔ آئین بنانا میرا کام نہیں بلکہ یہ کام اسمبلی ہی کو کرنا ہے۔‘‘ یہ باتیں خود خان آف قلات نے 1976 میں سید ذوالقرنین زیدی کو انٹرویو میں بتائیں۔ اس دَور میں خان آف قلات بلوچستان کے گورنر بھی تھے۔ ان کا یہ انٹرویو اسلام آباد کے سرکاری ادارے ’’ادارہ برائے تاریخ و ثقافت‘‘ نے کتابی شکل میں’’قائداعظم اور ان کے رفقاء‘‘ کے عنوان سے چھاپ رکھا ہے۔

دن رات یورپ کی مثالیں دینے والے کیا اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ یورپی ممالک بشمول برطانیہ میں جمہوریت کے لیے لڑی جانے والی جدوجہد میں بدعنوان، نو دولتیے اور قزاق بڑی تعداد میں شامل تھے۔ جس ملک میں 67سالوں میں پہلا جمہوری تسلسل ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کوشاں ہو وہاں ’’آئیڈیل جمہوریت‘‘ کی بات کرنے کے پیچھے کون سی سیاست کارفرما ہے؟ اس بارے میں سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ علامہ اقبال اور قائداعظم میں سے کسی ایک کا تعلق سول ملٹری بیوروکریسی سے نہیں تھا۔ 1973 کا متفقہ آئین سیاست دانوں نے دیا۔ مختلف ادوار میں آمریتوں کے خلاف بحالی جمہوریت کی جدوجہد سیاست دانوں ہی نے کی۔ این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کی متفقہ منظوریاں بھی انہی ’’ناعاقبت اندیش ‘‘سیاست دانوں ہی کا کارنامہ ہے۔ اس سب کے باوجود آج بھی ملک پاکستان میں پارلیمنٹ کی تکریم بارے طرح طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو دال میں کالا کی چغلی کھارہا ہے۔ - 
See more at: http://humshehrionline.com/?p=11559#sthash.v1YJD0yv.dpuf

Unusal Punjabi Novel: review by Mushtaq Soofi in Dawn


Unusal Punjabi Novel: 

Review by Mushtaq Soofi in Dawn

You may like or dislike the new Punjabi novel, Madho Lal Hussain (a tribute to Lahore), but you cannot ignore it. Liking and disliking can be intense as the novel has an uncanny power to evoke contradictory feelings in a narrative that emerges out of the richly layered socio-political landscape of Lahore city. The novel, published by New Line Publishers, Lahore, is the latest work of prominent fiction writer and poet Nain Sukh, the nom de plume of Khalid Mahmood who is a lawyer by profession. He has stories to tell and his repertoire seems to be large and diverse. In a short span of time he has emerged as one of the leading fiction writers of our times. He has already published three books of short stories, two of which have won accolades from readers and literary critics alike.

Publication of his Madho Lal Hussain firmly establishes him a writer of high literary calibre and fecund imagination.


It sets him apart from so many other fiction writers of Punjabi language who appear by and large to be lazy if we look at the thorough research, sheer labour and the maturity of creative skill that seems to have gone into making his novel a fascinating literary product which is nothing less than a serendipitous gift for imaginative and intelligent readers interested in knowing the city`s hidden life and much talked about but rarely brought to life the characters that symbolise an undyinglust oflife in a process of destruction and regeneration; natural and socially triggered.

The novel draws its charm from oral history that has been transmitted from generation to generation in a subconscious effort on the partofourpeople tokeepthe other side of the story alive not found in the chronicles and socalled standard histories penned by recipients of kings`largesse. Ina recent interview (published in this paper) Khalid Mahmood talking to Naeem Sadhu, tells about the dilemma his collected stuff posed. `After meeting lots of people and collecting a bulk of oral history, I became confused about how to knit all of them to an integrated form until I read ` Higeegtul Fugra in 1990. It solved my problem,` he explains.

The book might have inspired his imagination in terms of choosing a particular form of narrative but it doesn`t sufficiently explain the way his complex story covers the wide spectrum of city`s life and characters.

Madho Lal Hussain is a novel not meant for those who are in search of a logically constructed story narrated in a traditional manner with a beginning, middle and end. You may be disappointed if you tend to visualise happenings and developments in linear time. His non-linear narrative shuttles between the past and the present hinting at what the future possibly would looklike. Backward and forward movement in time keeps you at tenterhooks blurring the intangible boundaries between what was and what is, making life appear an indivisible whole.

Khalid`s is canvas as large as life where you encounter saints and sinners, kings and paupers, pimps and prostitutes, democrats and dictators, nobility of brothels and brothels of the nobility in a broken chain of events that are like rising and ebbing waves. The novel is big socio-cultural cauldron full of preand post-colonial delectable and detestable stuff that attracts and repulses at the same time.

The novelist to a large measure successfully decodes what remains coded till now and subverts the meanings of the already coded by the vested interest groups in order to malce the past and its repercussions palatable.

It`s a creative and imaginative expose of the celestial and the mundane that makes life what it is, be it individual or collective.The sublime creates an aura of mundaneity and the mundane evokes subliminal ambiance, illuminating the conflicting and contradictory aspects of human existence.

The novel is a must read to understand the psychic skein of the Punjabi people who in an unending struggle for survival manage albeit painfully not to surrender to the demons that continue to haunt them. It must be on the shelf of each library; public and private.

OTHER MEDIA LINKS REGARDING NEWS AND REVIEWS
http://punjabpunch.blogspot.com/2015/05/oral-history-of-lhoreinterview-of.html

Thursday, May 21, 2015

Roots of extremism in triangular region (Iran, Afghanistan and Pakistan)

Roots of extremism in triangular region (Iran, Afghanistan and Pakistan)
What is special in this region which attracts the world from centuries?  Like numerous other regions the area grew from tribal identities and Kingships to city states. Now it is divided in three nation states Iran, Afghanistan and Pakistan yet Middle East is behind Iran, Central Asia, Russia and china are behind Afghanistan while South Asian states are behind Pakistan. It is a region where you can find a nexus of land and sea routes linked with river systems started from Golan heights and Shwalak till Persian gulf and lhori bandar (Debal Ghat). Since ancient times the region was ruled by pirates and Lashkars but now it is home of numerous State and Non State Networks. The list is in process


  1. Hindustani Fanatics , I ndia’s Pas h tuns , and Deobandism – C onnections Copyright © 2009 Tribal Analysis Center, LTD     http://www.tribalanalysiscenter.com/PDF-TAC/Hindustani%20Fanatics-Deobandism.pdf
  2. CAMPAIGNS ON THE RTH-WEST FRONTIER BY CAPTAIN H. L. NEVILL, D.S.O. ROYAL FIELD ARTILLERY 1912  https://ia902205.us.archive.org/12/items/campaignsonnorth00nevi/campaignsonnorth00nevi.pdf
  3. Seddition Report 1918 https://ia802604.us.archive.org/2/items/seditionreport00indirich/seditionreport00indirich.pdf

Tuesday, May 19, 2015

Oral History of Lhore:Interview of Punjabi Novelist Nain Sukh

Oral History of Lhore

Interview of Punjabi Novelist Nain Sukh

The Novel and other books of Nain Sukh (Khalid Mahmood) are available online @

www.readings.com.pk


Media Coverage of Nain Sukh Novel

http://punjabpunch.blogspot.com/2015/04/punjabi-novel-reporting-of-launching.html


Saturday, May 16, 2015

Pakistan: Coastal Policy & New Narrative

Pakistan: Coastal Policy & New Narrative


Our coastal belt started from Lhori Bandar and via Karachi it ends at Gwadar, covers 1050 km long area. Issues related to Karachi and Baluchistan especially Gwadar largely linked with politics of coastal belt.  Presence of huge non-formal economy reminds us FATA yet unlike frontier we have not an in-depth coastal policy. Interestingly in his famous address Allama Iqbal pinpointed it 85 years back in 1930 yet our policy makers followed Simon Commission report instead of Iqbal.
Again, it is significant that the Simon Report has given extraordinary importance to the question of India's land frontier, but has made only passing references to its naval position. India has doubtless had to face invasions from her land frontier; but it is obvious that her present masters took possession of her on account of her defenceless sea coast. A self-governing and free India will, in these days, have to take greater care of her sea coast than [of her] land frontiers.
Sir Muhammad Iqbal’s 1930 Presidential Address to the 25th Session of the All-India Muslim League Allahabad, 29 December 1930

Feroz Khan Noon purchased Gwadar in September 1958 yet next month Gen Ayub imposed marshallah. At first July 1977 Gwadar was included in newly formed Balochistan province by Bhutto yet he was removed after 4 days. The story of coastal belt and hidden trade base politics needs little attention. Read and unlearn

محض الطاف حسین کو اِدھر اُدھر کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی ایم کیو ایم کی جگہ پی ٹی آئی کو کراچی کے تحت پر بٹھانے سے کراچی کا امن بحال ہوگا۔ یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مفصل ساحلی پالیسی، ریاست کی رٹ کی عملداری، غیر رسمی تجارتوں کی رسمی تجارتوں میں منتقلی اور منتخب قیادتوں کی فیصلہ سازی میں شمولیت ہی وہ راستہ ہے جو کراچی تا گوادر امن کا ضامن بن سکتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ہماری کوئی ساحلی پالیسی ہے بھی یا نہیں؟ ٹھٹہ کے قریب لہوری بندر سے براستہ کراچی، اورماڑا، گہرے سمندر میں بنی گوادر کی قدرتی بندرگاہ تک ایک ہزار 50 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی امریکہ، چین کی طرح پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کیوں نہ بن سکی؟ اس سوال کو جاننے ہی سے آپ کو بلوچ لبریشن آرمی سے ایم کیو ایم تک پھیلی جماعتوں کی سیاست سمجھ آسکتی ہے۔ - 

آج سے ٹھیک 85 برس قبل اپنے تاریخی خطبہ الہٰ آباد میں اس ساحلی پٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہاتھا ’’اس بات کی اہمیت دیدنی ہے کہ سائمن رپورٹ برصغیر کی زمینی سرحدوں کو غیر معمولی اہمیتوں کی حامل قرار دیتی ہے مگر اس کے ساحلی مقامات کے بارے میں معمولی سا اشارہ کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس بات میں تو شک نہیں کہ برصغیر پر بہت سے حملے زمینی سرحدی علاقوں ہی سے ہوئے ہیں مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے موجودہ آقا اسی لیے ہم پر قابض ہوئے تھے کیونکہ ہمارے سمندری ساحل ناقابل دفاع تھے۔ آزاد و خود مختار برصغیر کو سرحدی علاقوں کے مقابلہ میں سمندری ساحلوں کے علاقوں کی زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔‘‘ - 

اب ذرا غور کریں تزویراتی گہرائی (Strategic depth) کے سارے نظریہ میں سائمن کمشن رپورٹ کی تقلید نظر آتی ہے کہ سارا زور زمینی سرحدوں پر ہے اور ساحلی پاکستان کا ذکر گول۔ پھر بھی ہمارے سول و عسکری پالیسی ساز اگر یہ کہیں کہ ہم 67 سالوں سے آزاد و خودمختار ہیں تو اس پر کون یقین کر سکتا ہے؟ اہم ترین قومی پالیسیوں کے حوالہ سے اگر ہم آج بھی ’’برٹش انڈیا‘‘ کے ڈھول کو بجانے پر مصر ہیں تو اس کا الزام کس پر دیا جائے؟ - 

19 ویں اور 20 ویں صدی کی بین الاقوامی تجارتوں میں سمندری تجارتوں کا حجم تیزی سے بڑھتا چلا گیا تھا کہ 1869 میں نہر سویز کے سمندری شارٹ کٹ کے بعد بحرہند کی تجارتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اب بحر روم سے بحر ہند یا بحر ہند سے بحر روم تجارتی جہاز بحراحمر کے وسیلہ سے آنے جانے لگے۔ اب ان سمندری راستوں پر موجود شہروں اور خلیجوں (گھاٹ) کی اہمیت بھی بڑھنے لگی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 1947 کے بعد ہم اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اپنی ساحلی پالیسی بناتے مگر ہم سائمن ہی کے اسیر رہے۔ امریکہ اور چین میں ترقی کی رفتار بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے اپنے ساحلی شہروں کو کسی مذہبی،لسانی، قومیتی تفریق کے بغیر بے پناہ ترقی دی۔ 1971 سے قبل پاکستان کے پاس خلیج فارس، خلیج دیبل اور خلیج بنگال تک رسائی تھی مگر ہم نے خطبہ الہٰ آباد سے رجوع کرنے کی بجائے سائمن سے رجوع کیا۔ 1970 کے بعد تیل کی پیداوار میں اضافہ کے بعد تو خلیج فارس کی اہمیت دیدنی ہوگئی مگر ہم بدستور اونگتے رہے۔ چین نے اپنی ساحلی پالیسی پر انہی سالوں میں دوبارہ غور شروع کیا۔ 1978 میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے اس پالیسی کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور 1984 میں چین 14 نئے ساحلی شہر بسانے کے منصوبے شروع کر چکا تھا۔ - 

Saturday, May 9, 2015

Unsung hero: A story of a vibrant political worker Islam ul Haq



Unsung Hero 

A story of a vibrant political worker Islam ul Haq

Political parties owe a lot to their workers and, in the absence of vibrant political workers, they tend to become clubs. Politics in Pakistan is in disarray because political worker is an endangered species these days. Other factors of course being money and the inclusion of apolitical elements in politics that began in the 1980s, owing to the extremist policies of the ‘agents of change’.
Islam ul Haq, born on January 9, 1954 in Sahiwal, was a vibrant political asset for the left liberal forces in Pakistan. According to Professor Ijaz ul Hassan, his mentor, the 17-year-old Islam was present in the November 1967 political meeting at Lahore where Zulfikar Ali Bhutto founded his new party. From that day until his death, he remained with the Pakistan People’s Party (PPP), never losing his commitment regarding the left liberal agenda. Like many PPP workers of the late 1960s, communists groomed him but, instead of being strangled in the iron curtain of smaller left formations, he opted to swim in the ocean of people.
http://tns.thenews.com.pk/islam-ul-haq-unsung-hero/#.VU7fi44iq1t






اسلام کا شمار ایسے سیاسی کارکنوں میں ہوتا ہے جو بیک وقت بائیں بازو کے زوال کے بھی ’’ہمدردنقاد‘‘ تھے اور مقبول عام پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ پر پریشان بھی۔ ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان میں نہ تو بناوٹ تھی اور نہ ہی دہرا معیار۔ بہت سے ترقی پسندوں کے برعکس وہ محض سیاسی سطح پر ترقی پسند افکار کو اپنائے نہ تھے بلکہ اپنی سماجی زندگی میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھتے تھے۔ جب اسلام نے اپنی شادی پر جہیز نہ لینے کا نعرہ مستانہ لگایا تو لڑکی والے گھبرا گئے۔ - 

http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpbs








آج جو لوگ پاکستان میں نوجوانوں کے پاکستانی سیاست میں شامل ہونے بارے تجزیے کرتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ بھٹو وہ پہلا رہنما تھا جس کا ساتھ دینے نوجوان جوق در جوق نکلے تھے۔ میٹرک کے بعد اسلام گورنمنٹ کالج فار ٹیکنالوجی (رسول) آگیا جو آج کل ضلع منڈی بہاؤالدین میں ہے۔ ڈپلومہ کے بعد اسلام کراچی چلا گیا اور وہیں سے بی اے کی ڈگری لی۔ 1976 میں محکمہ سوئی گیس میں ملازمت شروع کرنے سے سے قبل وہ بائیں بازو کی سیاست سے بخوبی آگاہ ہوچکا تھا۔ 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں روس چین جھگڑوں کے بعد ترقی پسند بہت سی جھتے بندیوں میں بٹ چکے تھے کہ انہیں میں ایک ’’پروفیسر گروپ ‘‘ بھی تھا۔ جس شخصیت سے اسلام تا عمر عشق کرتا رہا وہ تھے پرو فیسر اعجاز الحسن کہ انہی کے ’’وسیلہ‘‘ سے اسلام پروفیسر گروپ کے نزدیک ہوگیا۔ بائیں بازو کی جھتے بندیوں کے نزدیک ہوتا اسلام پیپلز پارٹی کا بنیادی رکن بن کر ابھرا کہ راج جگڑ کے پاس عوامی فلیٹس میں اس کا ٹھکانہ ضیاء مخالفت کی بڑی کمین گاہ تھی۔ کیونکہ وہ ہر کسی سے ملتا تھا اس لیے اس پر بائیں بازو کی فرقہ پرستی کی چھاپ نہ لگی۔ وہ تو بس یہ چاہتا تھا کہ سب رل مل کر ضیاء مخالفت تحریک کا حصہ بینں اور جمہوریت و ترقی پسندی کے لیے کام کریں۔ ملک بھر میں اس کے سیاسی دوستوں کا وسیع حلقہ موجود تھا اور جو بھی سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر سے آتا اس کے لیے اس کا فلیٹ حاضر۔ پی پی پی اور کیمونسٹوں میں تال میل کی ٹوٹتی بنتی کہانی تاحال کسی نے نہیں لکھی کہ اس تجزیہ کی آج دونوں کو اشد ضرورت ہے - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf




گھر میں بھی ترقی پسند (الگ باکس بنا چھڈو) مردوں کی اس دنیا میں کسی مرد کا صنفی برابری کے اصول کو دل سے قبولنا اور عملی زندگی میں اپنی بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل کام ہے۔ بہت سے سکہ بند کامریڈوں کو اس میدان میں شہ مات کھاتے دیکھا ہے۔ مگر اسلام یہاں بھی ’’مرد حر‘‘نظر آیا۔ اشرافیہ کے گھروں میں تو صنفی برابری وراثت میں آنے والی جائیداد کی طرح اک اضافی رعایت ہوتی ہے مگر متوسطہ طبقہ کے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں میں صنفی برابری کے اصول کو اپنانے سے جو مشکلات در آتی ہیں انہیں اشرافی طبقہ والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کی بیگم کے بقول وہ گھر میں روائیتی مرد نہیں تھے بلکہ گھر کے وہ کام کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے جنھیں عموماً عورتوں سے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ کچن میں کام کو وہ عار نہیں سمجھتے تھے۔ اپنی بیگم کو پڑھایا اور مردوں سے بھری اس دنیا میں اسے آگے بڑھنے میں مدد دی اور پھر ثمینہ ورلڈ بنک میں ملازم ہوگئی۔ بقول ثمینہ ہمارے گھر میں صنفی برابری کا اصول نافذ رہا۔ ثمینہ مسرت کی باتیں سن کر اس بات پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ کچھ جوڑیاں آسمانوں پر ہی بنتی ہیں۔ ثمینہ کا خاندان تو عرصہ دراز سے پنجاب چھوڑ کر کوئٹہ جابسا تھا اور اسلام لاہور کی سٹرکوں پر ضیا مخالف لہر میں رجھا ہوا تھا۔ مگر کرنا خدا کا ایسے ہوا کہ دونوں کا رشتہ ہوگیا۔ ثمینہ کو ڈر کہ لڑکا کہیں عورتوں کے کام کرنے کے خلاف نہ ہو جبکہ اسلام جس سے شادی کرنے کو تیار تھا اسے پنجابی سکھانے پر کمر بستہ۔ روائیتی مشرقی لڑکیوں کے برعکس ثمینہ کو کپڑے، لتہ کا شوق بالکل نہیں تو اسلام ’’داج‘‘ لینے کو گناہ کبیرہ سمجھتا تھا۔ یہ مست ملنگوں کی جوڑی آسمانوں پر بنی تھی کہ کوئٹہ اور لاہور کا فاصلہ ان کے ملن کو روک ہی نہیں سکتا تھا۔ صنفی برابری کے حوالہ سے ماں اور بیٹی دونوں میں اتفاق تھا کہ اسلام دونوں خواتین کو اپنے فیصلے خود کرنے میں ہلہ شیری دیتا تھا۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf





اس ریفرنس میں بلا آخر اسلام کی بات سنی گئی کہ جب بائیں بازو کی پرانی نظریاتی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سابقہ پروفیسر گروپ کے لیڈر اور لکھاری پروفیسر عزیز الدین نے پرانی سیاست کو بدل چکے حالات کی روشنی میں بدلنے کا اقرار کر لیا۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا ’’ہمارا پرانا جنریٹر جو کبھی بہت روشنی پیدا کرتا تھا اب اس سے زیرو کا بلب بھی نہیں جلایا جاسکتا۔‘‘ میڑوپولیٹن کلب اورسوئی نادرن گیس کے محکمہ میں ہونے والی انتخابی سیاست کے ذریعہ جمہوری گنجائشوں کو استعمال کرنے والا اسلام خود کو ’’سچ کا واحد ٹھیکہ دار‘‘ نہیں سمجھتا تھا کہ اس خوبی کی بدولت وہ دوستوں کا وسیع حلقہ رکھتا تھا۔ ضیا الحق دور میں سیاست میں پیسہ شامل کیا گیا کہ سیاسی کارکنوں کو کرپٹ کرنا ضیاشاہی کا مشن تھا۔ ضیاء دور میں کروائے گئے بلدیاتی انتخابات کا مقصد اختیارات کی نچلے درجوں پر منتقلی نہیں بلکہ من مرضی کے لوگوں کو سیاست میں شامل کرنا تھا۔ یہ وہی بدنیت پالیسی ہے جس پر جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے صدق دل سے عمل کیا۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوتیں دیں گئیں۔ کہیں ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرستوں کو تھاپڑا دیا تو کہیں سیاست میں پیسہ شامل کر کے سیاست کو رگیدا گیا۔ اس سب کا مقصد سیاست کو رسواء کرنا تھا۔ مگر اسلام الحق پر اس سب کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے انداز میں اس عمل کو گہرائی میں سمجھتے ہوئے اس کے خلاف نبرد آزما رہا۔ وہ سیاست میں پیسہ کے وارد ہونے اور سیاسی کارکنوں کے کرپٹ ہونے کا بھی گواہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ بائیں بازو کی انتہاپسندیوں اور پیپلز پارٹی کی کوتاہیوں پر نظر رکھنے والا اسلام یہ بات سمجھ چکا تھا کہ سیاست میں پیسہ داخل کرنے کا مقصد سیاست سے عوام کے کردار کو نکالنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf


انسانوں اور فرشتوں میں یہی فرق ہے کہ انسانوں میں خوبیاں اور خامیاں دونوں ہی ہوتی ہیں۔ اسلام بھی غلطیوں یا خامیوں سے مبرا نہیں تھا مگر اس کی خوبیوں نے اس کے گھاٹوں پر پردہ ڈال دیاہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں رضا کارانہ کام کے جذبے دم توڑ رہے ہیں اور سیاست بین الاقوامی امدادی اداروں کی مرہون منت ہوتی جارہی ہے وہاں آج بھی اسلام جیسے بہت سے کارکن اس ملک پاکستان میں موجود ہیں۔ بہت سے مایوس ہیں، کچھ ضد میں ٹھک ٹھک کر رہے ہیں، کچھ روٹی روزگار میں رجھے ہیں کہ سیاست میں جو بے توقیری آج نظر آرہی ہے اس کی فکر اسلام کو کھائے چلی جاتی تھی۔ آخری ملاقات ’’میٹرو پولیٹن کلب‘‘ میں ہوئی کہ اسلام ایک دفعہ پرپھر ’’منگل گروپ‘‘ بنانے میں سنجیدہ نظر آیا۔ یہ گروپ ضیا شاہی کے خلاف چلایا جانے والا اک مورچہ تھا۔ اسلام سمجھتا تھا کہ بائیں بازو کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کو دوبارہ سے کھڑا کرنے کے لیے اسی طرح جدوجہد کرنی چاہیے جیسے 1960 کی دہائی کے آخر میں انھوں نے کی تھی۔ وہ برملا کہتا تھا کہ پاکستان میں ترقی پسندی کا سب سے بڑا مورچہ پی پی پی ہے اور بائیں بازو کے لوگوں کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بچانے کی بجائے اس مورچہ کو سنبھالنا چاہیے۔ اسے ایسے ترقی پسندوں سے چڑ تھی جو جمہوریت کے خلاف آمروں کی زبان بولتے ہوں۔ ’’موجود‘‘ کو بدلنے کی خواہش کا مسافر اسلام الحق اس سفر میں اکیلا نہیں بلکہ پاکستان کے ہر ضلع میں ایسے ’’گمنام ہیرو‘‘ موجود ہیں جنھوں نے نہ تو کبھی سیاست سے مالی منفعت کمائی ، نہ کسی انعام کے حصول کے لیے دوڑے اورنہ ہی لیڈر ی کے لیے چا کر ی کی۔ بس اسلام الحق منگل گروپ کی شکل میں ان گمنام سپاہیوں کو اکٹھا کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے راہی ملک عدم ہوا۔ اسلام الحق کی کہانی ہم میں سے بہت سوں کی داستان ہے کہ آج اس 57 سالہ کو دوبارہ سے کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf

Friday, May 8, 2015

Pakistan: In between Devil & Deep Sea


Pakistan: In between Devil & Deep Sea

Signals of intervention are visible in Pakistan. State of Pakistan can take benefit from this situation provided elected and non elected tiers remain on one page otherwise third party will use them as par past practice. Cases, rebuttal and apologies of Altaf Hussain , conflicts on Kasghar-Gwadar route, unprecedented acts of Zulfiqar Mirza all looks different angles of a same plan. Recent Helicopter incident reporting by some foreign press is enough to understand that some forces always tries to spread misleading information. Everyone in Pakistan want to know who is our god? In Allahbad adress Iqbal, 85 years back pinpointed two strategic areas, one was our coastal belt and other was areas adjacent to Durand Line.  Still we are struggling to secure both naked borders. 
read and try to de-construct it


دیکھا جائے تو الطاف حسین نشانِ عبرت بن گئے ہیں کہ ’’غیروں‘‘پر تکیہ کرنے سے بدرجہا بہتر تو ملک کی جیل میں جانا تھا۔ بھٹو سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ عدالتوں سے پھانسی دلوانے کے باوجود آج بھٹو کے بدترین دشمن بھی یہ کہتے ہیں کہ بھٹو کو انصاف نہیں ملا۔ پاکستان سے باہر بیٹھے بلوچ اس سے سبق سیکھیں تو بلوچستان کی مشکلیں کم ہوسکتی ہیں۔ انہیں تو مولانا عبید اللہ سندھی ہی کی کتب پڑھ لینی چاہیے کہ مولانا 1915 سے 1939 تک انقلابی روس سے مقدس حجاز تک 24 سال گذار کر جب واپس آئے تو انہیں بخوبی معلوم ہوگیا کہ ’’باہرلے‘‘ ہمارے عوام کا مقدر بدلنے سے زیادہ اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ - 

پاکستان اور بھارت کالا باغ اور سروپ ڈیم نہ بنا سکے۔ دونوں ممالک میں ڈیموں کے مخالف بظاہر آگے بڑھے ہوئے انقلابی تھے، کچھ جانتے ہوئے اور کچھ نہ جانتے ہوئے۔ مگر یہ بات جھٹلانی مشکل ہے کہ یہ فیصلے اسلام آباد اور نئی دلی میں ہی ہوئے یا کہیں اور ہوئے تھے؟ ترکی اور مصر ایسے ممالک ہیں جنھوں نے سرد جنگ میں کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا اور اپنے بین الاقوامی قرضے معاف کروائے مگر ہمارے ہاں صرف چند ہی لوگوں کی جیبیں گرم ہوئیں اور ملک میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بڑھا۔ یہ سب واقعات ایک ہی نتیجہ کی طرف  اشارے کر رہے ہیں، - 

چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہو یا پاکستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت کے واقعات، لندنی قانون کی دیوی کا یکدم متحرک ہونا ہو یا پھر پاکستان میں نئے بیانیے کی تلاش، ان سب واقعات کے حوالے سے جو طوفان 13 مئی 2013 کے بعد تیز ہوچکے ہیں وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کبھی الطاف حسین سے پاکستانی پارلیمان سمیت مقتدر اداروں کے خلاف بیان دلواتے ہیں تو کبھی اس پر مقدمات کے منطقی انجام تک پہنچنے کی خبریں چلاتے ہیں۔ سیاست سے الگ تھلگ رہنے میں مشہور لندن پولیس کا چیف کبھی بیان داغتا ہے تو کبھی کوئی گمنام برطانوی سیاستدان اس ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ لندنی سرد خانے میں ایسے کئی منجمد سانچے ہیں جنھیں بوقت ضرورت پگھلایا جائے گا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمان، فوج، عدلیہ، میڈیا اور دیگر ادارے ایک صفحہ پر نہ ہوں وہاں ’’باہرلوں‘‘ کی موجیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2013 کے انتخابات کے بعد اندرونی اختلافات کو بڑھانا ضروری قرار پایا۔ مگر دیکھا جائے تو ان باہرلے چیلنجوں کو مواقع میں بھی بد لاجا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور مقتدر ادارے غیر آئینی و غیر جمہوری و غیر قانونی اقدامات سے پر ہیز برتنے پر اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ حالیہ عرصے میں دھرنوں اور یمن کی دلدلوں سے نکلنے میں پارلیمانی قرار دادوں نے ریاست پاکستان کو خاصی گنجائش فراہم کی، اب مقتدر اداروں کو بھی یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ پارلیمان کی موجودگی میں کسی بھی بااثر ملک کو ’’ون ونڈو آپریشن‘‘ کے ذریعے وطن عزیز کوڈکٹیشن دینے سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ - 


Tuesday, May 5, 2015

Climate Change & Pakistan: Are we ready to map this monster?


Climate Change & Pakistan:Are we ready to map this monster?



Peshawar incident once again exposed state of dealing with disasters and our so-called independent media failed to raise the issue properly. How General Mushraf ruined NDMA has a lesson for those who spent huge international money and expertise to develop a system to combat natural disaster in Pakistan.  No one can enforce reform agenda in the absence of political consensus. Setting up headquarter of NDMA in PM house is not enough rather it proved another failed exercise and wastage of huge money.  Climate Change is visible yet we have not any system in provinces and districts. we did not learn lesson from Anatol Lieven's warning regarding climate change in the opening pages of his unusal book Pakistan A Hard country. Read and map the apathy





Revisiting Left Politics in Pakistan: listen and Unlearn


Revisiting Left Politics in Pakistan

listen and Unlearn

Punjabi speech of Professor Azizdin in which he accepts need to revisit past politics. He said that old generator is not working so develop a new generator. Can we do it without leaving prides and prejudices? he was adressing in a refrence organized at Lahore Press Club at May 3, 2015 listen and Unlearn
https://www.facebook.com/aamirr

Friday, May 1, 2015

Time for MQM: Either to revisit her narrative or....?


Time for MQM: 

Either to revisit her narrative or....?

اگر وہ خود کو اعلیٰ تہذیب یافتہ وغیرہ وغیرہ کہیں گے تو پھر ان کا رشتہ یہاں کے باسیوں سے کیسے بن سکے گا؟ - 

Today Sindhis/PPP has realized why MQM was supporting division of the Punjab. In order to make Karachi a separate province they can support divisions in all other provinces. It is not the only issue where the party is exposed. The drama of opposing and supporting security forces exposed MQM. Party has a case against internal migration of people from other areas to Karachi yet they never criticized centralist policies of ICS fame officers in early 1950s who compelled Pakistani State to invest in Karachi. If sweet is there than it is useless to stop flies. So from early 1950s Pakistanis came to karachi for employment and business. Due to such migration now percentage of Urdu speaking population has been reduced to less than 47%. Estimated population of Karachi is 23 million yet 12 million population consists of Pathans, Sindhis, Balochs, Kashmiris, Hazara Punjabis, Baltis, Kashmiris and Punjabis. So in such demographic situation the slogan of Karachi Province is a useless weapon. Read details why MQM should revisit her narrative ...piece written in weekly Humshehri

Click & read complete story

http://humshehrionline.com/?p=11109#sthash.gAmyvhxB.dpbs

مظلومیت کی داستان ایسی مہارت سے تراشی جاتی ہے کہ آئی سی ایس افسران کی مرکزیت پسند پالیسیوں سے لے کر بھتہ خوری تک کے واقعات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ کبھی انہیں بانیانِ پاکستان کا تفاخر تھما دیا جاتا ہے، کبھی انہیں لکھنؤ، اودھ، آگرہ کی عظمتیں یاد دلائی جاتی ہیں، کبھی انہیں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے باسی کہا جاتا ہے، کبھی انہیں سب سے زیادہ پڑھا لکھا کہا جاتا ہے، کبھی انہیں شہری متوسط طبقہ بتایا جاتا ہے تو کبھی اسلامیان ہند کی نشانی۔ یہی نہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہوچکی ہے۔ اس لیے یہ الگ صوبہ یا ملک بھی بن سکتا ہے۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ 1947ء سے 2015ء کے درمیان کراچی کی آبادی میں اُردو بولنے والوں کا تناسب آج 50 فی صد سے بھی کم ہوچکا ہے -

اگر مسلم لیگ ان علاقوں میں نہ پھلتی پھولتی تو مسلم اقلیتی علاقوں میں 8 یا 12 فیصد رہنے والے مسلمان کیا کر سکتے تھے؟ - 

۔ اگر بانیانِ پاکستان کہلانے کا پیمانہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان بننے کے وقت گھروں سے بے گھر ہوئے، مارے گئے تب بھی ان قربانیوں کا تناسب پنجاب میں کہیں زیادہ ہے۔ - 


انہیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ جب پاکستان بنا تھا تو 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا سب سے بڑا شہر لاہور اور دوسرا بڑا شہر ڈھاکہ تھا۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ اس شہر سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں کی شرح اس لیے زیادہ ہے کیونکہ یہاں بہت سے قومی اداروں، بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر ہیں کہ ان کی ٹیکس فائل یہیں جمع ہوتی ہیں۔ اب کمپنیوں اور بینکوں کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل ہو رہے ہیں تو کیا کل کو ٹیکس دینے والے سب سے بڑے شہر کا تمغہ اسلام آباد کو مل جائے گا۔ ایسے تفاخر کو کیا کرنا جو آج کسی کے کھاتے میں اور کل کسی کے کھاتے میں جائے۔ -
 

اگر وہ خود کو اعلیٰ تہذیب یافتہ وغیرہ وغیرہ کہیں گے تو پھر ان کا رشتہ یہاں کے باسیوں سے کیسے بن سکے گا؟ - 


۔ آج الطاف بھائی مہاجر صوبہ کا نعرہ لگائیں یا پھر کراچی کو الگ ملک بنانے کا اعلان کریں، مگر صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے وہ متحدہ، متحدہ کا ’’ورد‘‘ کرتے رہے۔ اپنی پارٹی کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بھی رکھ ڈالا۔ یہ بھی کہا کہ ہم پر ’’جناح پور‘‘ کے نام سے الگ ملک بنانے کا الزام غلط تھا۔ یہ بھی کہا کہ وہ بھی سندھی ہیں اور سندھ کی تقسیم کے خلاف بھی ہیں، یہی نہیں بلکہ سندھی ٹوپی اور اجرک بھی استعمال کی۔ مگر جب زوال کا وقت آیا تو دوبارہ سے مہاجر اور مہاجر صوبہ کا راگ سننے کو ملا۔ -

کراچی کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ شہر درحقیقت ’’منی پاکستان‘‘ بن چکا ہے اور یہ منی پاکستان سندھ دھرتی کا جزوِ لاینفک ہے۔ ہر وہ جماعت جو ان زمینی حقائق کو مان کر سیاست کرے گی وہ شہری، دیہی سندھ کو آگے لیجانے میں حصہ دار ہوگی۔ - 

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...