Views of Iqbal & Jinnah and Language controversies in Pakistani Political scene
:21
فروری مادری زبانوں کا بین الاقوامی دیہاڑ
کیا
اقبال و جناح مادری زبانوں کے خلاف تھے؟
عامر
ریاض
Read the Article Published @ Dawn Urdo Blog and Click
اقبال
و جناح کے حامیوں و مخالفین نے گذشتہ 66 سالوں سے دونوں رہنماﺅں
کے حوالہ سے کچھ ایسی گمراہیاں پھیلائیں ہیں کہ ان کے اصل خیالات و افکار سے رجوع
کرنے کی ضرورت جتنی آج ہے اُتنی کبھی نہ تھی۔
میں جس خاندان میں پیدا ہوا وہاں
مسلم لیگ پر تنقید رواج کا حصّہ تھا۔ مولانا ابولکلام آزاد کی کتب بھی گھر میں
موجود تھیں اور ان کی بڑی سی تصویر بھی ڈرائنگ روم میں آویزاں تھی۔ البتہ سکول میں
جو نصابی کتب پڑھیں ان میں اک دوسرا بیانیہ پڑھنے کو ملا جسے سرکاری بیانیہ(Narrative) کہنا غلط نہ ہوگا۔
شاید یہ ان متحارب خیالات کی یلغار ہی تھی جس نے مجھے کتابیں پڑھنے پر لگادیا کہ
بی ایس سی کرتے کرتے میں زیادہ تر وقت تاریخ و سیاسیات کی کتب پڑھنے میں صرف کرنے
لگا۔ تاریخ کے مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے میں کچھ حصّہ اے حمید کی کتب کا بھی تھا
اور پھر بائیں بازو کے تڑکے نے اس کو مزید بڑھاوا دے ڈالا۔ سچ کی تلاش عقلیت (Rationality) کی
طرف بڑھنے کا پہلا پڑاﺅ
ہوتا ہے۔ اس کی تلاش میں اگر رعونیت کا عنصر نمایاں ہوجائے تو علم کی طلب ماند
پڑجاتی ہے۔ بس اسی سفر میں یہ عقدہ کھلا کہ کسی بھی شخصیت یا پارٹی بارے کوئی بھی
رائے قائم کرنے سے قبل اس کے اصل بیانات و تحریروں کو اسی زبان میں پڑھنا لازم ہے
جس میں متعلقہ شخص نے پہلی دفعہ لکھا ہو۔
اس
خیال نے میری دنیا ہی بدل دی۔ اگر آپ سرکاری وغیر سرکاری بیانیوں کو گھنگالنے کی
ہمت کرسکیں تو نئے راستوں پر چلنا آپ کا مقدر ٹہرتا ہے۔
جس کسی نے بھی علامہ اقبال
کے خطبہ آلہ آباد 1930، قائداعظم کی مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی
میں کی گئی
تقریر اور پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ نومبر 1947 (کراچی) کی رپورٹ جستہ جستہ پڑھی
ہو تو
وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہے گا کہ اقبال و جناح مادری زبانوں کو حرف
غلط سمجھتے تھے۔
جسے اس ضمن میں زیادہ گہرائی سے پڑھنا ہو وہ فارسی کے خاتمے(1837)
ہندی اُردو جھگڑے اور تامل ہندی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ ووڈز ڈسپیچ (1854) اور پنجاب
میں دیسی تعلیم بارے لائٹز کی رپورٹ (1882) کا بھی مطالعہ کرلے تو اسے زبانوں،
لہجوں اور رسم الخطوں کے حوالہ سے کھیلے جانے والے نو آبادیاتی کھیل کا بھی پتہ چل
جائے گا اور وہ ایک قومی نظریہ سے دو قومی نظریہ کی سیاست سے بھی آگاہ ہوجائے گا۔
خطبہ آلہ آباد میں تو اقبال نے ہندوستان بھر میں بولی جانے والی زبانوں کے احترام
کے حق میں دلائل دیے تھے۔ جبکہ 24مارچ1948 کی تقریر کے متن کو پڑھنے سے معلوم ہوا
کہ خود قائداعظم اُردو کو رابطہ کی زبان (Lingua Franca) کہنے سے پہلے یہ بات بھی
کہہ گئے تھے کہ
”صوبہ
میں سرکاری استعمال کے لیے اس صوبہ کے عوام جو زبان چاہتے ہیں اس کا انتخاب کرسکتے
ہیں۔ اس کا فیصلہ صرف اور صرف اس صوبہ کے عوام ہی کریں گے۔“
رابطہ
کی زبان اور واحد قومی زبان میں جو فرق ہے اسے بعد ازاں بوجوہ ملحوظ خاطر نہیں
رکھا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ قائداعظم کی زندگی ہی میں پاکستان بننے سے
صرف 45 دن بعد کراچی میں پہلی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس
میں پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم جناب فضل الرحمن نے طویل تقریر کرتے ہوئے اس بات
کا واضح اعلان کیا تھا کہ پاکستانی ثقافت کو بنانے میں کلیدی کردار پاکستان بنانے
والے صوبوں میں موجود مادری زبانوں، ان سے وابستہ ثقافتوں اور ان کے تاریخی تسلسل
کا ہوگا۔ یہ پہلی تعلیمی کانفرنس تھی اور اس میں ہونے والی بنیادی تقریر کا متن
اخبارات میں شائع ہوا مگر قائداعظم نے کبھی اس پر اعتراض نہ کیا ۔ یہ درست ہے کہ
قائداعظم کی وفات کے محض 6 ماہ بعد قرار داد مقاصد کے عنوان سے جو نئی سیاست شروع
کی گئی اس کا بیانیہ یکسر مختلف تھا۔ اس بیانیہ کا فائدہ حکمرانوں مگر نقصان اُردو
زبان کو ہوا کہ اُردو 1949 کے بعد پاکستانی علاقوں میں متنازعہ ہوتی گئی۔ اُردو کے
حمائتیوں اورمخالفین نے اقبال و جناح کی تحریروں کو اپنے تعصبات کی نذر کیا۔ مسئلہ
اس وقت زیادہ خراب ہوا جب 1954 میں محمد علی فارمولا کے تحت پاکستانی زبانوں کی
رنگارنگی کو تسلیم کرنے کی بجائے اُردو اور بنگالی کو قومی زبانیں قرار دے ڈالا
گیا۔ اُردو اور مادری زبانوں میں تکرار کا اصل فائدہ انگریزی زبان کی حاکمیت کو
ہوا جو تادم تحریر قائم و دائم ہے۔ اگر 1958 میں ایوبی مارشلاءنہ آتا اور اسمبلیاں
چلتی رہتیں تو سیاستدان اس درینہ مسئلہ کو حل کرلیتے۔ 1973 کے آئین میں آرٹیکل 251
کے ذریعے انگریزی کی حاکمیت، اُردو کے کردار اور مادری زبانوں کے حوالہ سے پہلا
قدم اٹھایا گیا مگر یہ آئین 5 جولائی 1977 کو معطل کردیا گیا۔ سونے پہ سہاگہ ضیا
الحق نے چڑھایا اور زبانوںکے ساتھ ساتھ لہجوں کی لڑائیوں کو بھی سیاست کا حصّہ
بنایا گیا۔ ضیاءدور میں جب انگریزی میڈیم سکولوں کی یلغار ہوئی تو زبان کا مسئلہ
اور زیادہ گھمبیر ہوگیا۔ انگریزی زبان کی بین الاقوامی اہمیت سے تو کسی کو انکار
نہیں مگر یہاں مسئلہ انگریزی زبان کی حاکمیت کا ہے جسے ضیا شاہی کے بعد پاکستان کا
مقدر بنادیا گیا۔ رہی سہی کسر آخری ڈکٹیٹر نے پوری کردی۔ پرویز مشرف کے دور میں تو
انگریزی زبان پہلی جماعت سے نافذ کرنے کا حکم بھی آگیا تھا کہ یہ سب زبانوں کے
حوالہ سے ہماری مبہم پالیسیوں کا احوال ہے۔ ایک زبان، ایک مذہب اور مرکزیت پسندی
کے بیانیہ کی حمائیت یا مخالفت میں جو دانشور اقبال و جناح کے بیانات سے کھیلتے
رہے ہیں انھوں نے بھی زبانوں کے مسئلہ کو بگاڑنے میں اپنا حصّہ خوب ڈالا۔ آج ضرورت
اس امر کی ہے کہ ایک پارلیمانی کمیشن کے ذریعے اُردو، انگریزی اور پاکستانی مادری
زبانوں کے درینہ مسئلہ کو حل کیا جائے۔ بصورت دیگر ہم”لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ“ کی عملی
تصویر بنے رہیں گے۔
Another article regarding Mother tongues
Old Twisted Narrative & Pakistani Mother Tongues
Another article regarding Mother tongues
Old Twisted Narrative & Pakistani Mother Tongues
Read all articles of the same author @ Dawn Urdo Blog at
No comments:
Post a Comment