Thursday, February 25, 2016

Heritage of Lhore, Political Agenda & Conflict of Foreign Capital

Heritage of Lhore, Political Agenda &

Conflict of Foreign Capital

            لاہور کی تاریخی عمارتیں، سیاسی ایجنڈے اور عالمی سرمایہ کی تکرار

Power players with conflicting interests are included in the campaign for the protection of heritage of my city LHORE. It's real name, as pronounce by its inhabitants is Lhore yet now it is urduise as Lahore. had campaigners stick with the issue of heritage of Lhore, things would be very different today yet  due to presence of conflicting players it became a Khilafat like movement. Resonance of ADB and Chinese investment heard many times which exposed conflicts of foreign investment well. If foreign investment was a cure then why there is hue & cry on new investments? The narratives of the campaigners are self contradictory in many ways. Some time they hide behind poverty, lack of basic needs, some time they pinpoint rate of interest of Chinese bank, some time they argue in favor of old ADB project regarding underground track with lavish investment and similarly sometime they hide behind heritage protection. We knew very well that neither Centre nor provincial governments have an exploratory record for the protection of heritage. 
The biggest heritage of my city Lhore is walled City and since 1980s it is under great danger. Huge markets is the major reason and filthy rich traders are buying houses and making it their Stores. Since 1990s World Bank is running a project yet till today not a single market ever shifted outside wall city. 
Read the complete piece published in the Weekly Humshehri this week

  
لاہور کی تاریخی عمارتیں، سیاسی ایجنڈے اور عالمی سرمایہ کی تکرار
عامر ریاض

لاہور کی تاریخی عمارتوں کےغم میں آجکل متضاد وجوہات کے تحت اسقدر گروہ متحرک ہیں کہ “رضیہ غنڈوں میں” والا محاورہ باربار یاد آتا ہے۔جیسے  “رضیہ” کی عزت کی حفاظت کے خلاف دو رائے نہیں اسی طرح شہر لاہور(جس کا اصلی نام  “لہور” تھا مگر بگاڑ دیا گیا)کے تاریخی ورثہ کو بچانے پر بھی کوئی دو رائے نہیں۔ مگر سوال تو “غنڈوں” کا ہے جو سرکا ر میں بھی بیٹھے ہیں اور غیر سرکار میں بھی  “عوامی بھروپ” بنائے موجود ہیں۔

اگراس مہم کو صرف تاریخی عمارتوں کی حفاظت تک محدود رکھا جاتا اور سیاسی جماعتوں و عالمی سرمایہ کی آپسی کشمکش سے دور رہا جاتا تو سول سوسائٹی کی  “جلوسیوں” کی بجائے پورا شہرلاہور اس مہم کا حصہ ہوتا۔ یوں یہ مہم لاہور کی تاریخی عمارتوں کو بچانے کی بجائے “اورنج ٹرین پراجیکٹ” بند کروانے کی تحریک جیسی بند گلی میں داخل نہ ہو چکی ہوتی۔

ترکی کے مسلمانوں کے حق میں جدوجہد شروع کی گئی تھی وہ مصطفی کمال پاشا کا ساتھ دینے کی مہم تھی مگر اس کا نام  “تحریک خلافت” رکھنے سے یہ تاثر ملا کہ یہ جدوجہد اک مر رہی بادشاہت کی بحالی کی تحریک ہے۔دسمبر1920میں پنجاب کے شہر امرتسر میں اس ضمن میں جو جلسہ ہوا اس میں مشہور راہنماسیف الدین کچلونے خطبہ صدارت میں مصطفی کمال پاشا کے حق میں دلائل دئیے تھے۔ مصطفی کمال پاشا توترکی کے خلیفہ کے خلاف علل اعلان لڑ رہا تھامگر ہم اس کی حمائیت میں “تحریک خلافت” چلا رہے تھے۔ یہی وہ تضاد تھا جس کی وجہ سے جناح، اقبال جیسے بہت سے راہنما اس گھن چکر سے پرے ہی رہے۔سونے پر سہاگہ مہاتما گاندھی نے چڑھایا اور تحریک خلافت میں سے سول نافرمانی کی لہر برآمد کر کے بحالی خلافت کی تحریک کو مزید گھنجلدار کر ڈالا۔ کچھ یہی حال تاریخی عمارتوں کی حفاظت کی لیے اساری جانے والی تحریک کا ہے کہ کبھی اس میں سے ورلڈ بینک کے رضائی بھائی ایشین ڈولیپمنٹ بینک کے پرانے ٹرین منصوبہ کی حمائیت برآمد ہو جاتی ہے جس کے تحت انتہائی مہنگازیر زمین ٹریک بناناتھا تو کبھی اس میں سے میٹرو بس کا غصہ اور اورنج ٹرین کے منصوبہ کی مخالفت امڈ آتی ہے۔
میرے شہر لاہور کا سب سے بڑا تاریخی ورثہ تو “اندرون لہور” (Walled City)ہے جسے اس شہر کی جان اور شان کہنا مبالغہ نہ ہو گا۔اس اندرون شہر کے بہت سے حصے بڑی بڑی مارکٹیں کھا چکی ہیں، یہاں کے باسی بادل ناخواستہ بیرون شہر گھر ڈھوندنے پر مجبور ہیں اور جانے کتنے سالوں سے ورلڈ بینک والے کراچی کی اک این جی او کے ذریعے اندرون لہورکوٹھیک کرنے میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں کتنی کثیر رقم لگ چکی ہے، اس کا سود کتنا ہے اس بارے بھی بہت سی کہانیاں اس شہر میں گردش کرتی رہتی ہیں۔اب اگر تاریخی عمارتوں کو بچانا ہی مقصود ہے تو پھر سب سے بڑے تاریخی ورثہ بارے مہم پہلے چلنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ بات بھی میڈیا میں آنی چاہیے کہ طویل عرصہ میں اس پراجیکٹ نے کیا کیا اہداف حاصل کیے ہیں۔اگر اس حوالے سے مہم بنائی جاتی تو اتنے عرصہ میں کم از کم بڑی بڑی مارکیٹوں کوشہر سے باہر منتقل کیا جا سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ تادم تحریر وفاق اور چاروں صوبوں کا تاریخی عمارتوں کی حفاظت کی حوالہ سے ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ یہ تاثر غلط نہیں کہ ہم ڈالروں کی گنگا میں نہانے کے لیے تاریخی عمارتوں کی حفاظت کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ڈالر یا پاونڈنرم قرضوں کی شکل میں آئیں یا پھر امداد کے نام پر مگر یہ کہاں خرچ ہوتے ہیں، کیوں خرچ ہوتے ہیں، کون خرچ کرتا ہے؟اس بارے اسمبلیوں میں بحث نہیں ہوتی۔
اس سب کے باوجود میں تو یہی چاہتا ہوں کہ لہور کی تاریخی عمارتوں بالخصوض اندرون شہر کو مزید نقصان نہ پہنچے۔ ایسی کسی کوشش کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس ضمن میں لاہور ہائیکورٹ میں اک حکم امتناہی بھی آچکا ہے مگر مقدمہ کرنے والوں نے اورنج ٹرین کے بننے سے متاثر ہونے والی عمارتوں کی جو طویل فہرست پیش کی تھی اسے عدالت نے بعین ہی تسلیم نہیں کیا اور محض گیارہ تاریخی عمارتوں کے حوالہ سے حکم امتناہی جاری کیا۔ دوسری طرف وزیراعلی پنجاب نے یونیسکو کی طرف سے آئی انگریز خاتون کو یہ یقین دلایا ہے کہ اس منصوبہ سے کسی تاریخی عمارت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ بیان اس لیے بھی میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کرسکا کیونکہ شہباز شریف نے پہلی دفعہ پنجابی زبان کی حمائیت بھی اسی بیان میں کی تھی کہ اردو میڈیا نے یہ خبر بوجوہ گول کر دی تھی۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اورنج ٹرین کے منصوبہ میں اک چینی بینک مدد کر رہا ہے کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے بہت سے گروہ تذبذب کا بوجوہ شکار ہیں۔ یہ ہے وہ سیاست جس نے اس مسلہ کو الجھایا ہوا ہے۔ سونے پر سہاگہ بیوروکریسی نے چڑھایا ہے جو ہر کام کو خفیہ رکھنے میں یدطولی رکھتی ہے۔ جب معلوما ت کو چھپایا جاتا ہے تو منصوبوں کے حوالہ سے خدشات بڑھ جاتے ہیں اور افواہوں کو  “پر” لگنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسے منصوبے اسمبلیوں میں لے جانے چاہیں جہاں متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹیوں میں حکومت اور حذب اختلاف دونوں کی نمائندگیاں ہوتی ہیں۔ مگر جہاں اصل ہدف منصوبہ کو ختم کرنا ہو یا عالمی سرمایہ کی کشمکش ہو وہاں وہی ہوتا ہے جو آجکل ہو رہا ہے۔ ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے ہی اسمبلیوںاور قائمہ کمیٹیوںپر مشتمل نظام حکومت کا ظہور ہوا تھا کہ ہمارے ہاں ابھی یہ نیا نیا چلنے لگا ہے اس لیے سیاستدانوں کو بھی اس پر عمل کرنے میں دشواریاں ہیں۔گو کہ اس میں برابر پیش رفت بھی جاری ہے تاہم جب تک ہمارا “آزاد” میڈیا ان کمیٹیوں کی اہمیت و افادیت سے کماحقہ آگاہ نہیں ہو گا اس وقت تک ان کی توقیر میں اصافہ نہیں ہو گا۔ پاکستان کوئی واحد ملک نہیں ہے جس میں میگا پراجیکٹوں پر سیاست ہوتی ہے کہ جہاں رقم کڑوڑوں سے اربوں میں شامل منصوبہ ہوتی ہے اس میں سیاست آہی جاتی ہے۔ حذب اختلاف مواقع ڈھونڈتی ہے اور جہاں موقع ہاتھ آئے وار کرنے سے چوکتی نہیں۔ تاہم ان کی باتوں پر اس وقت زیادہ توجہ دی جاتی ہے جب ایسے منصوبے اسمبلیوں کی کمیٹیوں سے گذرے بغیر ہی سامنے آتے ہیں۔
میں تو اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ باقی صوبے یہ قانون بنائیں کہ50کڑوڑ سے اوپر کے منصوبے اسمبلیوں کی منظوریوں کے بغیر نہیں چلائے جائیں گے توپنجاب سرکار پر بھی حقیقی دبا بڑھے گا کہ بہت سے مسلے حل ہو جائیں گے۔ مگر اس مطالبہ سے جمہوریت مزید توانا ہو جائے گی اس لیے کچھ قوتیں اسے قابل عمل قرار نہیں دیں گی۔
یہ درست کہ اورنج ٹرین کی وجہ سے آدھہ لاہور شہر ادھڑا پرا ہے، ٹریفک کے نظام میں بھی تنگیاں ہیں کہ ان کو کم سے کم کرنے کے لیے ویسی چستی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اب اگر اس کو بنیاد بنا کر ہم اس منصوبہ کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ کوئی دانشمندی نہیں۔
اگر آج بھی لاہور کی تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے اردگرد اس مہم کو کھڑا کیا جائے اور دیگر مقاصد کو کسی دوسرے پلیٹ فارم سے اٹھائیں تو لاہور کی تاریخی عمارتوں کی حفاظت اک متنازعہ مسلہ نہیں رہے گا اور عوام بھی اس میں دلچسپیاں بڑھائیں گے۔
Further Readings





No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...