Saturday, March 26, 2016

Remember March 29: A day When Britain annexed the Punjab

Remember March 29

A day When Britain annexed the Punjab

Due to Lhore Blast (26 March 2016) we have cancelled Today's Show (2nd in series) and will do it later. Aamir
It is story of more than 200 million Punjabis living in Two Punjabs, in different parts of South Asia, UK, Canada, USA, Middle East and rest of the world. Listen the first part of Lok Lhar radio show and we will do another program from post Maharaja times till the day of annexation soon. Just Think Why Indian, Pakistani and Britain media always ignore that Day ? 
167 years back when Punjabis were celebrating famous Festivals of Lights (Charaghann da Mela) their lands were annexed after massive resistance in which numerous Punjabis, Pathans and Kashmiris fought against Britain.  Although there is ample literature available regarding Lhore Darbar which ruled for 50 years yet under colonial legacy our children have no knowledge about it. Our historians, educationists and media still reluctant to leave that colonial baggage partly due to Anti Lhore Darbar propaganda and partly due to communal preferences.  We as the Punjab Punch did a program in 2014 " Annexation of the Punjab Day "  and this year two radio programs planned at Mast FM 103. You can listen recording of the first show by clicking History of the Punjab & Its surroundings Open the colonial knot & Deconstruct misleading History
You can listen 2nd show at 28th March 2016 from 4 to 6 pm (Pakistani time)

A book under process about Forgotten Punjab by Aamir Riaz ( A triology)


Friday, March 25, 2016

Flip-flop of Qudrat Ullah Shahab and Twists by Ansar Abbasi شہابیاں تے انصاریاں



Flip-flop of Qudrat Ullah Shahab and Twists by Ansar Abbasi

شہابیاں تے انصاریاں
عامر ریاض


نظریہ کی حفاظت کے لیے حقائق کو نکال باہر کرنا یا توڑنا مروڑنا لازم کہ انصار عباسی کا حالیہ کالم اس کی عملی تصویر ہے۔ حقائق بمعہ حوالہ جات یہاں شیر کر دیے جائیں گے اور کالم بھی کہ فیصلہ تہاڈے ہتھ وچ۔ پڑھ لو تے آپ سوچو کہ ہمارا مہان میڈیا اور اس کے کالم نویس تاریخی حقائق کو کیوں من مرضی سے توڑتے مروڑتے ہیں۔
پیچھلے دنوں انتظار حسین اور احمد علی خان پر کچھ لکھا تھا کہ اب یہ تحریر بھی اک صحافی ہی سے متعلق ہے اور اسی تسلسل میں بھی۔ کالم نویس نے جس “شہاب ثاقب” کو “پیر مغاں” مان کر کالم لکھا ہے پہلے ان بارے چند باتیں کر لیں پھر ان کے مہان خیالات کا ذکر بھی ہو گا۔
1917 میں بمقام گلگت میں پیدا ہونے والے ان انبالوی حضرت کے والد کو علی گڑھ سے گلگت کے دور دراز علاقہ میں کیوں جا مقیم ہونا پڑا اس بارے بھی حضرت نے اپنی ضخیم کتاب “شہاب نامہ” میں کوئی اشارہ بھی نہ کیا۔ البتہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ 1894 میں انگریز سرکار نے جو ڈیورینڈ لائن بنانی شروع کی تھی وہ چترال، گلگت، بلتستان کے دروں سے شروع ہوئی اور پاکستان، افغانستان اور ایران کی اس تکونی سرحد تک جاتی ہے جو بلوچستان میں ہے۔ ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد 1901میں صوبہ سرحد اور پھر فاٹا کا قیام بھی اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ یہی وہ پالیسی تھی جس کے تحت 1904 میں تبت پر فرانسس ینگ ہیسبنڈ نے قبضہ کیا اور 1914 میں برما سے ہمالیہ کے پہاڑوں میں گرہ پامیر (Pamir Knot) تک جانے والے رستہ تک میک ماہون لائن بنائی۔ ان کاروائیوں کی وجہ سے موجودہ گلگت بلتستان کے خطہ کی اہمیت انگریز سرکار کے لیے دیدنی تھی۔ 
پچھلے دنوں Luv Puri نے کشمیر بارے جب اک مختصر مگر اہم کتاب Across the LoC لکھی تو اس میں 1929 کے اس خفیہ معاہدہ کا ذکر بھی تھا جو ریاست جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ اور برٹش سرکار میں ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے مطابق انگریز سرکار نے گلگت بلتستان کا علاقہ 50 سال کے لیے ریاست کشمیر سے لے لیا تھا کہ ان کے کیا ارادے تھے یہی وہ راز ہے جو بہت سے بندگان خدا اور گروہوں کو گلگت بلتستان میں 19 ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے پہلے نصف میں بسنے والوں سے پوچھا جاتا ہے
۔British government finally finished that project just few days back from 14-August1947
یہی نہیں بلکہ 1933 میں انڈین کمیونسٹوں کے بارے چھپنے والی خفیہ رپورٹ نما کتاب “انڈیا اور کمیونزم” میں بھی مشرقی ترکستان میں جس اسلامی تحریک کا ذکر ہے اس سے محض اس لیے انگریز سرکار خوش نہیں تھی کہ خوجہ نیاز صاحب بالشیکوں کے حامی بتائے گئے تھے۔ اگر آپ نے رولٹ کمیٹی رپورٹ کی مفصل دستاویز اور 1933 کی کمیونسٹوں بارے رپورٹ پڑھی ہو تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انگریز سرکار روسیوں اور جرمنوں سے نمٹنے کے لئے 19 ویں صدی کی آخری دو عشروں سے متحرک تھی۔ یہی وہ بات ہے جو ایم آئی6 کا مصنف کیتھ جفری بھی لکھتا ہے۔
اسلام سے ان کی محبت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ جن خطوں میں وہ روسیوں، جرمنوں کو روکنا یا رگیدنا چاہتے تھے ان میں مسلم اکثریتوں کا راج تھا۔ اس سیاست کے تیز ہوتے دور میں شہاب صاحب کے والد علی گڑھ سے گلگت چلے گئے اور بقول اک سوانح نگار، شہاب کے والد وہاں ڈوگرہ راج میں گورنر تھے جب شہاب 1917 میں گلگت سے میں پیدا ہوئے۔  “سیاسی اسلام” سے محبت سے قبل محض 16 سال کی عمر میں شہاب ریڈرز ڈائجسٹ لندن کا مقابلہ جیت چکے تھے کہ جموں کے پرنس آف ویلز کالج اور لاہور کے گورنمنٹ کالج سے ہوتے ہوئے 1940 کے لگ بھگ شہاب انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔
1943 میں شہاب کو بطور آئی سی ایس افسر بنگال میں کام کا موقع ملا کہ جب یہ صوبہ بدترین قدرتی آفات کی لپیٹ میں تھا۔ اس وقت اپنے اختر حمید خان بھی انہی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنگال میں بطور آئی سی ایس افسر کام کرتے رہے۔ شہاب کے برعکس، اختر حمید خان نے اس تجربہ کے بعد بیورو کریسی سے تو بہ تائب کیا اور پھر اس ادارے کا کبھی رخ نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ افسران غریبوں کے نام پر آنے والی امداد سے گلچھرے اڑاتے ہیں اور بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔
شہاب صاحب نے بھی آئی سی ایس افسران کی بدعنوانیوں کا ذکر کیا مگر وہ خود کن باتوں کے گواہ تھے اس کی بجائے شہاب نامہ میں وہ لارڈ ویول، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کا نام لے کر اپنا قد بڑھانے کی سعی لا حاصل ہی کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کی ترجیحات کیا رہیں اس کا ثبوت خود شہاب نامہ میں حسن عسکری کے خط میں موجود ہے جو موصوف نے ممتاز شریں کو جولائی 1948 میں لکھا تھا۔ اس خط میں عسکری موصوف نےترقی پسندوں کے خلاف “جہاد” میں شرکت پر افسانہ نویس قدرت اللہ شہاب کی کتاب “یا خدا” کا دیباچہ لکھنے پر ممتاز شریں کو خراج تحسین پیش کیا۔
حسن عسکری کے خط کو پڑھ کر ایک دفعہ پھر مجھے انتظار حسین پر لکھا اپنا مضمون انتظار ختم ہوایاد آ گیا جس میں قیام پاکستان کے بعد برپا ہونے والے اس ترقی پسند مخالف رجحان کا ذکر تفصیل سے ہے جس کے کئی ایک “پہرے دار” اور “امام” تھے۔
حسن عسکری اپنے خط کا اختتام ان جملوں پر کر رہے ہیں “خیر خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ذہنوں پر سے ترقی پسندی کی دھند تو چھٹنے لگی” بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ عسکری صاحب مزید لکھتے ہیں ”کراچی کا ادبی ماحول کیا ہے۔ کتنے لوگ پاکستانی ہیں اور کتنے ترقی پسند؟“ P332
ایک طرف عسکری صاحب یورپی ادب کو متعارف کروانے والوں کے باوا آدم، اختلافات کو وجہ تضاد نہ بنانے کے دعویدار تو دوسری طرف مخالفوں کو پاکستانی ماننے سے بھی انکار۔ یہی وہ تضاد ہے جس میں ہم بوجوہ نو آبادیاتی دور سے “سرشار” چلے آ رہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھنا چاہتے کہ اسلام اور پاکستانیت کے نام پر ہم کس کس کا ایجنڈا چلاتے رہے ہیں۔ خیر اس مائنڈ سیٹ پر پھر کبھی بات ہو گی کہ اس وقت تو شہاب صاحب کے اک واقعہ کو بنیاد بنا کر لکھے جانے والے کالم تک ہی محدود رہنا چاہیے۔
پاکستان بننے کے بعد شہاب صاحب مختلف اعلیٰ عہدوں پر رہے کہ پھر غلام محمد کے وسیلہ سے گورنر جنرل کے سیکرٹری بنے۔ غلام محمد کو سکندر مرزا کھا گئے اور سکندر مرزا کو ایوب خان نے چلتا کر دیا مگر شہاب غلام محمد سے ایوب خان تک اس عہدہ پر رہے۔ ان کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی تھی اس بارے تو حضرت نے بتانا نہیں تھا۔ البتہ غلام محمد پر کیچڑ اچھال کر وہ اپنی پاک دامنی کا ثبوت پیش کرنے کی ناکام کوششیں شہاب نامہ میں کرتے رہے۔ صفحہ 701 سے 704 تک انہوں نے جو قصہ لکھا وہ بذات خود تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔ ان صفحات کو سکین کرکے یہاں اس لیے دیا جا رہا ہے کہ موصوف انصار عباسی نے اسے من مرضی کی کانٹ چھانٹ کے ساتھ اپنے کالم کی زینت بنایا ہے۔ آپ کالم اور یہ صفحات پڑھ لیں آپ کو فرق صاف نظر آجائے گا۔




شہاب کی بیوی کے جملے آپ خود پڑھ لیں کہ بیوی کو معلوم تھا بیورو کریٹ گرجتے کہیں اور برستے کہیں اور ہیں۔ شہاب کو تو ڈر تھا کہ کہیں سچ مچ استعفیٰ دینا ہی نہ پڑ جائے تبھی ان کی بیوی نے کہا “آپ صورتحال سے نمنٹ لیں گے یا میں ساتھ چلوں” ۔ مگر ایسے جملے کالم میں شامل کرنے سے وہ تاثر کہاں بننا تھا جس کے تحت اسے لکھا گیا تھا۔
شہاب نے جو واقعہ لکھا ہے و ہ ایوب خان کے ابتدائی دور کا ہے یعنی اکتوبر 1958 یا 1959 کے ابتدئی ماہ ہوں گے۔ حضرت نے تاریخ نہیں لکھی مگر تحریر و ترتیب خود یہی بتا رہی ہے۔ موصوف اکتوبر 1958 سے 1962 تک اسی عہدے پر براجمان رہے اور ان کا استدلال ہے کہ ایوب خان کو انہوں نے اپنے استعفیٰ کی دھمکی اور اعلیٰ ذہانت کی بدولت “جمہوریہ پاکستان” کی بجائے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” استعمال کرنے پر راضی کر لیا تھا۔ اب ذرا آپ 1962 کے آئین کی کہانی پڑھیں جو مئی 1962 میں آیا تو اس میں ایوب خان نے من مرضی سے اضافہ و ترامیم کیں اور پھر اسے نافذ کر دیا۔ اس آئین میں بھی “جمہوریہ پاکستان” ہی لکھا تھا نہ کہہ اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

شہاب صاحب کو تو 1962 میں نیدر لینڈ کی سفارت مل چکی تھی کہ حضرت کو پہلے ہی نکرے لگایا جا چکا تھا۔ اکتوبر 1962 میں بھارت چین لڑائی کے موقعہ پر شہاب کا “ایمان” ایک دفعہ پھر تازہ ہوا تھا کہ حضرت ایوب خان کو کشمیر پر چڑھ دوڑنے کے مشورے دے رہے تھے اور حوالہ کے لیے کسی چینی سفارت کار کے ذاتی پیغامات کا ذکر بھی شہاب نامہ میں موجود ہے۔ ہوسکتا ہے ان کی انہی حرکتوں کے باعث انہیں نیدرلینڈ بھیج دیا ہو۔ خیر جب 1962 کا آئین منظور ہو گیا اور اس میں لفظ جمہوریہ ہی تھا تو موصوف کا وہ دعویٰ کہاں گیا جو انھوں نے شہاب نامہ میں کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1963 تک 1962 کے آئین میں جمہوریہ پاکستان ہی لکھا جاتا رہا۔ البتہ دسمبر 1963 میں 1962 کے آئین میں پہلی ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم سے قبل کس کس نے “جمہوریہ” کو “اسلامی جمہوریہ” میں تبدیل کروانے کے لیے زور لگایا اس بارے ابھی مورخ کو محنت کرنا ہوگی۔ تاہم 1962 کے آئین میں کی جانے والی پہلی ترمیم اس لڑائی کا واضح ثبوت بھی ہے اور شہاب و عباسی کے بیان کردہ حقائق کے غلط ہونے کی تصدیق بھی۔ شہاب نامہ کو پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید لارڈ کلائیو کی فتح بھی شہاب نے کروائی تھی اور میکالے کے مقالہ کو بھی شہاب ہی نے لکھا تھا۔ پاک بھارت جنگ کے بعد البتہ شہاب کی گڈی دوبارہ اڑنے لگی اور موصوف کو نیدرلینڈ سے بلواکر 1966 میں انفارمیشن کے سنگھاسن پر بٹھادیا گیا۔ اب وہ اپنی تمنا پوری کرنے کے لیے سرگرم ہوئے کہ جس کا بڑا ثبوت بطور چیئرمین ادارہ نصابیات اسلامی جمعیت طلباءکے صدر (ناظم) کو لکھا وہ خط ہے جس کے تحت کشمیر کے جہاد کی تیاریاں اب غیر فوجی سطح پر کی جانی تھیں۔ اس بارے پھر سہی، کہ یہ تحریر صرف کالم تک ہی محدود رہے تو بہتر ہے۔



Another concocted story written by one of the member of same group Mr Mumtaz Mufti of Batala

 Page 501-3 Alukh Nagrri 

الکھ نگری میں ممتاز مفتی نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہئے ، انھوں جب شہاب سے اس کی وجہ پوچھی تو شہاب کا جواب تھا:
"اسلامی جمہوریہ " ہونے سے پاکستان کو مذہبی نہی بلکہ دنیاوی فائدہ پہنچے گا


Manzor Qadir remained in office as cabinet minister till June 1962 yet in the original 1962 constitution the word for country was Republic of Pakistan. As par Hamid Khan , the lawyer Bengali members of 1962 assembly raised voice for Islamic status in the name (Constitutional and Political History of Pakistan ) but he did not give any reference. 

Reading all the stories spread by Shahab & co and picked recently by Abbasi & co looks more tricky and one can understand why they are hiding facts?

Another link to check 1962 Constitution Original document

PAKISTAN: CONSTITUTIONAL ISSUES IN 1964 RALPH BRAIBANTI

there was a demand in the assembly and outside the assembly that the title should be the Islamic Republic of Pakistan


Shahab 1

Ansar Abbasi column

Shahab 2


Old tactics, Old narrative & misleading media


Old tactics, Old narrative & misleading media

Making and breaking of political parties is an old tactics and since formation of Republican Party of mid 1950s till formation of Patriot & Q-League we have a history of using small parties against popular parties or personalities.  Roots of this bad policy are inside the country so it is hard to find foreign hand. The media was already lineup so instead of exposing the new puppet show they remained busy in praising the puppets.  At March 23 Ex-Chief Justice and Mustafa Kamal were simultaneously supported Presidential system which shows their preferences.  
Equating MQM criminals with Bloch separatists is a trick as there is hell of difference between the scenario, circumstances and State policies in both cases A demand for making Baluchistan a province was present in Allahbad address and 14 points but policy mkers of the first draft of constitution failed to include that demand in 1950. Baluchistan became a province, finally after 23 years in 1970. The province is still in a bad situation partly due to its large size and small population and partly due to bad policies and proxy wars. High ratio of poverty and illiteracy has a pertinent   negative effect especially on lower as well as middle classes. National party government was the first representative provincial government who is in power. Contrary to Bloch or Baluchistan the city of Karachi made capital from day first in Pakistan. They got all the benefits and especially their upper & middle classes remained beneficiaries even after shifting of Capital in mid 1960s. But M Kamal is not ready to understand that basic difference. 

Read the article by clicking HERE



Thursday, March 24, 2016

Left in Pakistan: In memory of Qalib e Ali Sheikh

In memory of Qalib e Ali Sheikh

29 August 1939 

21 March 2016 

Here we will try to publish views and news about Q A Sheikh who died few days back in Lhore. I met his wife first time when we visited his home next day after his death. Professor Zafar Ali Khan, Mr Mansor Ahmad , Liaqat Ali of Takhliqat, Rana Abdur Rahman, M Sarwar, Professor Aziz u din , Pervaiz Majid and myself were sitting when his wife admitted that "oh chandy san ky meen party vich unhaan dy naal kum karaan par meenu gharoon nikalna changa nahi lagda si". I enjoed a long association with him during the times of Awami Jumhori Forum (www.ajfpk.org) from 2003 till 2012. Read a piece written by Kashif Bukhari and in near future i will add more. Those who want to share their experiences can send their writing/audio messages at aamirriaz1966@gmail.com

Pervaiz Majid and Qalib ali sheikh editing Awami Jumhori Forum at Newline , E 3,8 Cavalry grounds, Lhore in 2011


AJ Forum organized a program in memory of Professor Khalid Mahmood in 2011


......آخری مورچے کا سپاہی


شیخ جی کی ایک شام ادھار تھی میری طرف۔ ایک دن بحٽ ہو گئ شیخورہ ضلع کب بنا، شیخ جی کا کہنا تھا 47 سے پہلے،میں نے اختلاف کیا اور ایک'شام'کی شرط لگ گئ ۔شرط میں ہار گیا مگر شام ادھار رہ گئ ۔ویسے تو شیخ جی سے بحٽ کرنا کسی کم ہمت کا کام نہیں مگر وہ کمال نرمی سے کہتے،"یارا وہ شام کتھے؟" شیخ جی ویسے تو سیاست خاص کر لیفٹ اور کیمونزم پہ بات کرتے ہوے کسی کی نہ سنتے۔میں نے ٹریڈ یونین کے حوالے سے ایک جید لیڈر کی بات کی تو ایک خاص لہجے میں بولے " اوندی۰۰۰۰۰۰اوہنوں کی پتہ"۔گالی شیخ جی کی شخصیت کا جزوِ اعظم تھا۔ ایک بار مجھے کہا "اوۓ ۰۰۰۰۰ تیری جمہوریت وچ، اوۓ کیمونسٹاں دا جہموریت نال کی تعلق"۔ مخل میں دبنگ آہنگ سے گفتگو اور کسی کو خاطر میں نہ لاتے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر لینن بھی ان سے بحٽ کرتا کو اسے ٹوکتے،" او ٹھر جا یار ۰۰۰۰۰تیری۰۰۰تینوں کی پتہ"۔شیخ جی کا وسیع مطالعہ ان کے ٹھوس دلائل کی بیناد تھا۔ عوامی جمہوری فورم کی اشاعت کے دروان پرویز مجید کے ساتھ ان کی تلخ و ترش ہمیں اک لمحے کو پریشان کر دیتی مگر اگلی بار پھر گفتگو کا سلسلہ گزشتہ سے پیوستہ ہو جاتا۔رسا لے کی تیاری کے دوران بحٽ سب سے ذیادہ عامر ریاض کو کھلتی کیوں ایڈیٹر کی حیٽیت سے رسالے کی بر وقت تیاری اس کے ذمہ تھی۔ان کے لکھے مضامین کی پروف ریڈنگ جوکھم کام تھا کیوں ان کی لکھای اورحاشۓ پڑھنا اور غلطیاں لگانا کمپوزر کا امتحان ہوتا۔ جب دوستوں نے نظریاتی سیاست کو revisit کرنا شروع کیا تو شیخ جی لنین کی نیو اکنامک پالیسی (NEP) سے لیس میدان میں اترے اور بحٽ میں تو ان کا ثانی نہیں تھا۔ یوں وہ اس مورچے کے آخری سپاہی کے طور پر ڈٹ جاتے۔ آج لگتا ہے وہ مورچہ خالی ہو گیا،کہ آخری مورچہ پہ سپاہی تو اور بھی ہوں گے مگر شیخ جی جیسا ٹھوس مطالعہ اور دبنگ لہجہ کس کو میسر۔ love you شیخ جی۔اونج تے اوہناں دی سنگت کئ شاماں لنگیاں پر او شام جیڑی میں ہاریا ساں اوہ تےرہندی رہ گئ تے شیخ جی دی حیاتی دی شاماں پے گئاں ، ہنُ تے "جا او یار حوالے رب دے"


Tuesday, March 22, 2016

Question of Muslim Majorities and Politics : From Nehru report (1928) till 23rd March 1940 Lhore Resolution





مسلم اکثریتی صوبوں کے حقوق

نہرو رپورٹ(1928) سے قرار داد لاہور 23 مارچ (1940) تک

عامر ریاض


Link of the complete Article http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1103417120&Issue=NP_LHE&Date=20160323

 Question of Muslim Majorities and Politics 
 From Nehru report (1928) till 23rd March 1940 Lhore Resolution
If you have an eye on changing circumstances since approval of Lucknow Pact (1916) in general and approval of Nehru report (1928) in particular along with Allahbad Address 1930 and Lhore Resolution 1940 and can scan results of 1920, 1923, 1926 provincial elections and finally recheck 1937 election results at provincial level then you can understand the roots of Pak India conflict well. We have to leave perceptions and tries to check and recheck facts.

Question related to rights of Muslim Majorities was as essential as the question of whole British India and there were many rationalists among various parties and in media and businesses who tried their best to resolve it. Even today, Pakistan India peace is a dream and jingoism is order of the day. If we can read original documents then we can delink ourselves from court historians for once. Nehru Report of 1928 and Allahbad Address of Allama Iqbal 1930 played an important role in making and breaking political forces and i tried to analysis both in comparison. As a matter of fact, court historians of both countries still rectangle to include original complete texts of these documents in student courses. They used selective pieces but avoid full texts. Both countries are still reluctant to discuss gray areas and do emphasize in black and white histories and even subalterns failed to deconstruct the phenomenon. There are few good examples too like kangi Dwarka Das, H M Servai, Romela Thapar, Aysha jallal, K K Aziz, Jaswant Singh, Raj Mohan Gandhi, Seri Parkash, Petric French, Peter Clark, A G Noorani, Sughata Bose, Alex von Tunzeliman, Nain Sukh, Sadat Hassan Manto, Mohit Sen, Majid Skeikh, Mollana Ubaid ullah Sindhi, but lot more work is still pending. The article is an effort to unfold last 20 year politics with a hope that we can start writing history from people's perspective in future.


سیاست آنے والے کل پر نظر رکھنے کا نام ہے کہ سیاسی بصیرتیں رکھنے والے وہی ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے خبر دے دیتے ہیں۔ جب دسمبر 1930 میں علامہ اقبال نے دوبارہ دورہ ملتوی کرکے بلا آخر الٰہ آباد جانے کا قصد کیا تو بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ علامہ اقبال اپنی سیاسی بصیرتوں سے کام لیتے ہوئے مستقبل کی سیاست کی خبر دے رہے ہیں۔ علامہ اقبال الٰہ آباد میں پیش کردہ نہرورپورٹ کا جواب الٰہ آباد ہی میں دینا چاہتے تھے کہ اس لیے انھوں نے لکھنو اجلاس میں سید شمس الحسن کی دعوت کو رد کیا اور الٰہ آباد جاکر ہی نہرورپورٹ کا مفصل جواب دیا۔ بقول علامہ اقبال1930 کے اس خطبہ صدارت میں دی جانے والی تجاویز کو لے کر وہ سب سے پہلے “نہرو کمیٹی” کے پاس ہی گئے تھے۔ یہ وہی نہرو کمیٹی تھی جو مشہور زمانہ نہرورپورٹ پر کام کررہی تھی۔ ہماری نصابی کتب میں تو نہرو رپورٹ کو جواہر لال نہرو اور کانگرس کے کھاتے ڈالا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نہرو کمیٹی کے چیرمین موتی لال نہرو تھے اور اس رپورٹ کو تیارکرنے کا فیصلہ اک آل پارٹیز کانفرنس میں کیا گیا تھا جس میں کانگرس بھی شامل تھی۔ بڑے سائز کے 208 صفحات پر مشتمل یہ مفصل رپورٹ پڑھنے کے بعد اگر آپ خطبہ الٰہ آباد اور 23 مارچ کی قرار داد کے اصل متن پڑھیں گے تو آپ کو خود بخود 1928 سے 1940 تک کی سیاست بارے بھی چانن ہوجائے گااور 1941 سے 1947 کے درمیان ہونے والی سیاست کو بھی آپ ازخود سمجھ جائیں گے۔ نہرو رپورٹ اور خطبہ آلٰہ آباد میں بہت سے موضوعات مشترک ہیں تاہم ان کے حوالہ سے جو الگ الگ موقف اختیار کیے گئے وہ ان ترجیحات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں جن کو کانگرس و مسلم لیگ سمیت بہت سی جماعتوں نے اپنایا ہواتھا۔ ہندو مسلم مسئلہ، زبانوں کی بنیاد پر صوبوں کی ازسر نو تشکیل، مسلم اکثریتوں کا سوال، سول و ملٹری بیوروکریسی میں دیسی لوگوں کی شمولیت کے تناسب میں اضافہ، پارلیمان کی بالا دستی، ووٹ کے حق کا پھیلا، ریاستوں کا مستقبل، اقلیتوں و اکثریتوں کے کل ہند اور صوبوں میں حقوق، مرکزو صوبوں میں اختیارات کا سوال، جداگانہ انتخابات اور معاہدہ لکھنو کی حمائیت یا مخالفت سمیت بہت سے دیگر اہم موضوعات پر نہرو رپورٹ اور خطبہ الٰہ آباد میں تفصیلی جبکہ 14 نکات اور 23 مارچ کی قرار داد میں جستہ جستہ بحث کی گئی تھی۔ آج کا طالب علم و محقق اگر ان تمام امور بارے مختلف نقطہ ہائے نظر کواصل متن کے ساتھ نہیں پڑھے گا تو وہ یقینی طور پر پاکستان، بھارت اور برطانیہ کے درباری تاریخ دانوں اور انکے مخالفین کی رائے میں الجھ کر رہ جائے گا۔ جن کتب، رپورٹوں اور اعداد وشمار کے حوالے دیے گئے ہیں نصف صدی سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد ان کی اہمیت آج کچھ زیادہ بڑھ چکی ہے۔

10 اگست 1928 کو موتی لال نہرو کے دستخطوں سے جاری کردہ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس اس کمیٹی کی خالق ہے جس نے 19 مئی 1928 کو بمبئی میں اس کی تشکیل کا فیصلہ سنایا تھا۔ کمیٹی میں پنڈت موتی لال نہرو کے علاوہ سرتیج بہادر سپرو، سر علی امام، جناب پردھان، جناب شعیب قریشی، سبھاش چندر بوس، مدھورا انّے (Aney) ، ایم آر جیاکر، این ایم جوشی اور سردار منگل سنگھ شامل تھے۔ پنجاب سے اس کمیٹی میں اکثریتی مسلمان برادری میں سے نمائندہ لینے کی بجائے تعداد میں سب سے کم برادری سے سردار منگل سنگھ کا انتخاب اپنی جگہ اک سوال ہے۔ گوردوارہ سیاست کے موڈھی منگل سنگھ لائلپور (فیصل آباد) میں پیدا ہوئے اور 1945 تک کانگرس کی طرف سے ممبر مرکزی مجلس قانون ساز رہے۔ جن سیاسی پارٹیوں سے رپورٹ لکھنے والوں نے مشاورت کی ان میں مسلم لیگ، دڑاوڑ مہاجن سبھا، آل انڈیا کانگرس، قومی غیر براہمن پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف بمبئی، مزدور کسان پارٹی بمبئی، مرکزی خلافت کمیٹی، مرکزی سنگھ لیگ، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگرس سمیت دو درجن کے قریب جماعتیں شامل تھیں۔

نہرو رپورٹ لکھنے والے کل ہند سطح پر تو اکثریت کی حکمرانی کے قائل تھے مگر جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں انہیں جمہوریت بارے تحفظات تھے۔ وہ معاہدہ لکھنو کو برقرار رکھنا چاہتے تھے جس کے تحت 1916میں پنجاب و بنگال کی مسلم اکثریت کو ویٹج کے تکنیکی فارمولا کے تحت 50 فیصدی سے کم کردیا گیا تھا۔ یاد رہے، اس دور میں دوہی صوبے تھے جن میں مسلم اکثریت تھی کہ سندھ بمبئی کی ماتحتی میں تھا ، صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق تاحال نہیں ملے تھے اور بلوچستان کو صوبہ بنانے سے انگریز گریزاں تھے۔ لکھنو معاہدہ میں بڑی ہشیاری سے پنجاب و بنگال کی مسلم اکثریت کو 50 فیصدی سے کم کرنے کا ردعمل ہرگاہ دیکھا گیا۔ میاں محمد شفیع، علامہ اقبال، سی آر داس، حکیم اجمل خان اور خلافت کمیٹی پنجاب نے مختلف وقتوں میں نہرورپورٹ سے قبل یہ احتجاج رجسٹر کروادیا تھا۔ لال دین قیصر تو پنجاب میں 1926سے 56فیصدی تحریک بھی چلارہے تھے جس کو میاں سر فعل حسین، علامہ اقبال وغیرہ کی حمائیت حاصل تھی۔ سندھ، پنجاب، سرحد کے غیر مسلم لیڈران نہ تو سرحد کو صوبائی حقوق دلوانے کے لیے سرگرم تھے، نہ ہی پنجاب کو اس کی عددی حیثیت کے مطابق نشستیں دنیا ضروری خیال کرتے تھے، نہ ہی بلوچستان کو صوبہ بنوانے میں سرگرم عمل تھے اور سندھ کو تو بمبئی کے زیر سایہ ہی رکھنا چاہتے تھے۔ بس اس مائنڈ سیٹ کا سایہ فگن نہرو رپورٹ پر بھی پڑا تھا۔منگل سنگھ کے نہرو کمیٹی میں انتخاب کا معاملہ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ رپورٹ کے صفحہ 45 پر اک ایسا اقرار موجود ہے جسے 1947 میں جھٹلایا گیا تھا۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ لاہور اور گرداس پور مل کر ایسا مسلم زون بنتا ہے جہاں پنجابی مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں کی کل تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ پنجابی مسلمانوں کے تناسب کو %56 سے گھٹا کر 47.3 فی صد کرنے والی یہ رپورٹ خود تسلیم کرتی ہے کہ مردم شماری کے مطابق ضوبہ پنجاب میں پنجابی مسلمان 56 فیصدی ہیں۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کے خلاف تفصیلی بحث شامل رپورٹ ہے۔ اس حصّہ کے آخر میں لکھا ہے کہ بمبئی سے الگ ہوکر سندھ معاشی طور پراپنے پاں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ بلوچستان کو صوبہ بنانے کی حمائیت بھی اس رپورٹ میں نہیں ملتی اور صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق دینے بارے بھی تحفظات۔ البتہ رپورٹ کے لکھاریوں کو سرحد و بلوچستان میں بسنے والے غیر مسلموں کا بہت درد ہے۔ یہی نہیں بلکہ پنجاب و بنگال میں مسلم اکثریتوں کو ان جمہوری حق دینا بھی انھوں نے گوارا نہ کیا۔
زبانوں کی بنیاد پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کے حوالہ سے تامل، بنگلہ، میراٹھی، گجراتی، سندھی وغیرہ کا تو ذکر ہے مگر پنجابی، پشتو، بلوچی، کشمیری اور اُردو کو رپورٹ کے زیرک لکھاریوں نے کمال ہشیادی سے ”ہندوستانی“ کے کھاتے ڈال دیا۔

مرکز کو تمام تر اختیارات دینے کی حمایتی نہرورپورٹ کامل آزادی کی بجائے ڈومینین سٹیٹس کو ترجیح دیتی تھی۔ علامہ اقبال کا نام لکھے بغیر رپورٹ میں ان کی اس تجویز پر بحث کی گئی ہے جس میں علامہ اقبال نے سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو اک اکائی مانتے ہوئے نیم خود مختاری دینے کی حمائیت کی تھی۔

اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے جس تمسخر، تعصب اور رعونت کا اظہار رپورٹ میں کیا گیا اس سے رپورٹ کے لکھاریوں کی چلاک علمیت کا بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے۔ ڈھائی سال بعد لکھا جانے والا خطبہ الٰہ آباد نہرورپورٹ کا مفصل جواب بھی ہے اور راہ عمل بھی۔ خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے واضح طور پر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، سرحد کو مکمل صوبائی حقوق دینے، بلوچستان کو صوبہ بنانے اور پنجاب و بنگال کے مسلمانوں کو عددی تناسب کے حوالہ سے انکا جمہوری حق دینے کی حمائیت کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس تاریخی دستاویز میں علامہ نے مذہب، قوم پرستی اور جدیدیت میں نئے رستے تلاش کرنے کی طرف اشارے بھی کیے، پنجابیوں پٹھانوں کی انڈین برٹش فوج میں بڑھ چکی تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرنٹیر پالیسی میں ترمیم و اضافہ کے موضوع کو زیر بحث بھی لائے اور کوسٹل (ساحلی) پالیسی بارے عدم اطمینان بھی ریکارڈ پر لائے تھے۔ نہرو کمیٹی کے اراکین ہی کیا، بہت سے اہم مسلم لیگی لیڈروں کو بھی 1930 کی دہائی کے پہلے وسط تک علامہ کے خطبہ کی حقانیت سے کما حقہ آگاہی نہیں تھی۔ تاہم 1937 کے انتخابات کے نتائج کے بعد بہت سے لوگوں کو مسلم اکثریتی صوبوں کے کلیدی کردار بارے کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔

23 مارچ 1940 کی قرارداد پر خطبہ الٰہ آباد کا نقش سب سے نمایاں تھا اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ لاہور میں منظور کی جانے والی اس قرار داد کے لکھاریوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کانگرس والے اکثریتی مسلم صوبوں کی خود مختاری کے مطالبہ کی مقبولیت سے خائف ہوکر اس مسئلہ کو پنجاب و بنگال کی مسلم و غیر مسلم کی بنیاد پر انتقال آبادی کے سوال سے جوڑ دیں گے۔ 

قرار داد لاہور میں دیے گئے مطالبات کو اسقدر پذیرائی ملی کہ اپریل 1942 میں خود کانگرس پنجاب کے صدر باغبان پورہ (لاہور) کے میاں افتخارالدین اور مدراس کے چکروتی راج گوپال اچاریہ اس کے اسیر ہوئے۔ کانگرسی کی ورکنگ کمیٹی میں راجہ جی کی قیادت میں 15 کانگرس ممبران بشمول صدر کانگرس پنجاب نے مسلم اکثریتوں کو جمہوری حق دینے کی حمائیت میں قرارداد جمع کروائی جو رعونت کی وجہ سے مسترد کردی گئی۔ یہی نہیں 1943 میں ہونے والی پہلی کانگرس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے جو ادھیکاری تھیسس اپنایا اس میں مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو اولیت حاصل تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے 14 اگست 1947 تک اپنے موقف میں تبدیلی نہ کی۔ جب کانگرس یک و تنہا رہ گئی تو اس نے مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو مذہبی بنیاد پر کی جانے والی انتقال آبادی کے ساتھ مشروط کردیا کہ راجہ جی کے نواسے راج موہن گاندھی نے پنجاب بارے لکھی اپنی کتاب میں آل انڈیا کانگرس کی وہ قرار داد بھی چھاپی ہے جس میں سیکولر کانگرس پنجاب و بنگال کی مذہبی تقسیم کا مطالبہ مارچ 1947 میں کررہی تھی۔یاد رہے یہ تین جون کے معاہدے سے پہلے کی بات ہے۔ ایسے میں کانگرس یہ بھی بھول گئی کہ اس تقسیم سے پنجاب و بنگال کے غیر مسلم (ہندو اور سکھ) بھی متاثر ہوں گے۔

مئی 1946 کو انگریز حکمرانوں کا پیش کردہ کا بینہ مشن پلان بھی خطبہ الٰہ آباد اور 23 مارچ 1940 کی قرار داد کی فتح تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے مسترد کر ڈالا۔ آج 2016 میں 23 مارچ 1940 کو گذرے 76 برس ہونے کو ہیں اور پاک وہند کے امن پسند لوگ بھارت و پاکستان میں امن کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
اگر نہرورپورٹ کے لکھاری علامہ کی بات مان لیتے، کانگرس والے میاں افتخار الدین اور راجہ جی کی بات پر دھیان دیتے اور مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو کانگرس مذہبی بنیاد پر انتقال آبادی سے نتھی نہ کرتی تو شاید اس خطہ کی تقدیر آج سے کہیں مختلف ہوتی کہ دفاع کے نام پر ہم جو زرکثیر ضائع کررہے ہیں وہ اس خطہ کے عام لوگوں کی تقدیر بدلنے پر خرچ ہوتا۔ بس23 مارچ کو اس لیے بھی یاد رکھیں کہ جمہوری حقوق سے اجتناب کا سب سے زیادہ نقصان خود کو ہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی طاقت زبردستی اکثریت کو دبا نہیں سکتی۔ آخری بات یہی ہے کہ سیاست میں چلاکیا ںوقتی طور پر مددگار ہوسکتی ہیں مگر آخری نتیجہ میں وہ جلد یا بدیر طشت ازبام ہوجاتی ہیں۔


Bhagat Singh & Mahatma Gandhi: Controversies & Contradictions

Bhagat Singh & Mahatma Gandhi

Controversies & Contradictions

Deaths of Netaji & Bhagat Singh still haunting South Asian court historians and still after more then 75 years riddles are unresolved. Question of date of execution is not as much important yet it is necessary for the record but vital question is role of various actors before and after execution of 24 years old Bhagat singh and his comrades. Why biographers/writers of Bhagat Singh including Manmath Nath Gupta, D P Das, K K Khullar , A G Noorani had to deal the question regarding conspicuous role of Mahatma in the judicial murder of B S & his partners. D P Das wrote " Neither Gandhi nor Irwin had told the whole truth". In the biography of Lord Irwin (Lord Halifax P 313 published in 1943 as quoted by Noorani p 317 in The Trial of Bagat Singh) biographer Allan Campbell Johnson mentioned an agreement between Irwin & Gandhi regarding the execution, Interestingly in two statements quoted by Noorani Mahatama himself mentioned date of execution as 24rth March and two newspapers of Lahore and Newyork published the news at 25th March.

Read some links and try to resolve the riddle and soon I will add some more things later





  

Sunday, March 20, 2016

29 March Radio Show--History of the Punjab & Its surroundings: Open the colonial knot & Deconstruct misleading History



History of the Punjab & Its surroundings

Open the colonial knot & Deconstruct misleading History

Part 1
Lok Lhar Program recorded at March 21, 2016 ONLY @ Mast FM 103 4 to 6 pm
Misconceptions about the History of the Punjab ...Listen and Unlearn what you mislead about the Punjab.

Listen the Show by clicking HERE
For online listening of radio  click here http://tunein.com/radio/Mast-FM-Lahore-1030-s116431/
Are we ready to unlearn colonial interpretations? Was Lhore Darbar anti Muslim?
Why Ranjeet Singh refused British for using the Punjab against Kabul three times?
Who used Sikh Muslim and Punjabi Pathan conflict? 
Listen and unlearn
Guests: Professor Zubair Ahmad & Punjabi Novelist Nain Sukh along with Aamir Riaz TuTu and Afzal Saahir
The program is part of series " Remembering 29 March1849" When the British colonialists annexed the Punjab
We will upload its recording soon.
لوک لہر، 21 مارچ 2016
بسلسلہ: 29 مارچ: انگریزاں دے پنجاب تے قبضہ دا دیہاڑ
ٹاپک: پنجاب دی گواچی تواریخ بارے پڑچول
(1849-1799)
گل بات 
پروفیسر زبیر احمد اتے ناول نگاری تے کھوجی نین سکھ

سوال ایہہ نیں
1 -     کیہہ اساں نو آبادیاتی حکمراناں دی لکھی تواریخ توں ہٹ کے سوچ سکدے ہاں
2-      دھرمی ونڈ اتے Communal divide نال تواریخ نوں بیان کرن دا کم کس شروع کیتا؟ کیوں شروع کیتا اتے ایس دا فیدہ انگریزاں توں علاوہ دھرمی سیاست کرن والیاں نوں کنج ہویا اتے اج وی ہورہیا ہے۔ ایس بارے کون غور کرسی؟
-3      جنوبی ایشیا یا برصغیر وچ آخری آزاد حکومت “لہور دربار” سی جیہڑی 1799 توں 1849 تیک پورے 50 سال پنجاب، کشمیر، خیبر پی کے اتے فاٹا تک چلدی رہی۔ ایس بارے جھوٹ کیوں پھیلائے گئے؟
-4      پاکستانی سرکار پنجابیاں، پٹھاناں،بلوچاں، سندھیاں تے کشمیریاں دے بچیاں توں انہاں دی تواریخ توں کیوں دور کیتا ہے؟
-5      کیہہ مہاراجہ رنجیت سنگھ مسلماناں دا ویری سی؟
-6      کیہہ مہاراجہ کشمیریاں تے پٹھاناں دا ویری سی؟
-7      “نیلی کتاب” کتھے ہے؟ ایس نوں کیوں سامنے نہیں لیایا جاندا؟
-8      لہور دربار توں پہلے دا پنجاب، لہور دربار دے ویلے دا پنجاب، انگریز دور دا پنجاب اتے انگریزاں توں بعد دا پنجاب۔ جدتیک اساں اینہاں چاراں پیریڈاں بارے وکھو وکھو پڑچول نہیں کراں گے سانوں اندر دی گل پلے نہیں پئے گی۔ پر ایس لئی سانوں اینہاں چاراں پیریڈاں وچ لکھیاں لکھتاں وی ویکھنی ہون گیاں اتے اینہاں بارے بعدوں لکھیاں لکھتاں تے وی جہات پانی ہوئے گی۔



 

CLICK below, 

part 1


Friday, March 18, 2016

Half Truth: A review of Ahmad Ali Khan’s book “In Search of Sense”


Half Truth

A review of Ahmad Ali Khan’s book

“In Search of Sense”

Bhopal, Pindi Conspiracy case, the socialist utopia: Disillusionment, Biases against the Punjab and Mian Iftiqar u din, joining hands with dictatorship, rise and fall of media, Pakistan times, Dawn, praise for power broker journalist Altaf Hussaein,  and many more things
Editor’s job is the important one and in many ways it plays vital role in setting the future agenda. That is why it is essential for an editor neither to become part of power politics nor to use his personal prides and prejudices while analyzing an event or commenting about a personality. There is a quote by Jarod Kintz which is a final word i-e “There are two typos of people in this world: Those who can edit and those who can’t”.  But the book under review is little tricky. Although the writer is an acclaimed editor but the book revealed how an editor can twist things too yet it needs attention. The book is written none the other but a seasoned editor who served as a journalist for 55 years.  Although we fortunately have a long list of seasoned journalist cum editors who served the media for long time yet in the introduction I A Rahman explained view point of Ahmad Ali regarding professional editors in a strange way. “However, he(author) regretted that professional editors were regarded as a ‘vanishing breed’ in both Pakistan and India and he doubted if post independence South Asia had witnessed a true flowering of journalism and the media’s accession to strength ‘as an agency of progressive, social and political change’ ”. What was the pre-partition legacy of media? It was largely one sided media in many ways . In pre-partition times media was either pro-congress, Pro-Muslim League, pro-government, pro-Hindu or pro-Muslim etc . It was largely based on sentimentalism and we also knew their communal and sectarian preferences too. There were reasonably good editors too in Pre-partition times but their political positionings were larger then journalism. It was a time of Party Papers. As par his own statement if post-independence scenario was shaky regarding media then why to praise any single media?

link of the Publisher
Ahmad Ali Khan was born in 1924 in a Muslim minority State Bhopal. Like Hyderabad Deccan and Oudh rulers of Bhopal had a strong legacy of using particular Muslim sects extensively in the statecraft yet Ahmad Ali Khan neither pointed it nor wrote a single line about Ahl hadith Nawab Siddiq Hassan Khan, husband of longest ruling Begum of Bhopal Amira Shahjahan Begum. His conflicting praise regarding Muslim Bhopal is itself an interesting study especially for those who want to understand minority mindset.
“Muslims dominated almost every department of life (in Bhopal)…” In a Hindu dominated area if Muslims of Bhopal had domination then at least author should condemn that attitude yet while praising Muslim Bhopal he failed to do justice. Contrary to his praise he simultaneously admitted that unlike Muslim ruled states (Hyderabad, Bhopal, Rampur, Junagarh and Bhawalpure) the States ruled by Non Muslim like Travancore, Cochin, Baroda, Indore were way ahead in education during the Raj. In this same chapter which is full of praise for enlightened moderation of Bhopal the author wrote “Hardly about 5% of effected 40 million Muslims living in Hindu Majority areas in 1947 migrated to Pakistan”. He did not give any reference for this claim. It is a reality that Punjabis and kashmiris were the main victim of transfer of population and among them Muslims of Ludhiana, Jalandar, Ferozpur, Gurdaspur and Amritsar suffered a lot. In all these districts Punjabi Muslims were single largest and had above 44% Muslim population.
Till 1939, the author was not only inspired from the critic of Mhatma Gandhi, Neta ji Subhash C Bose but strangely he also started using the title Khadim e Kaaba with his own name. It is prove of conflicting preferences the author had since early period. That conflicting attitude runs in his writings too. He narrated many events which made book more important than his own thoughts. Remembering his Aligarh days he revealed that one of the factors that helped the Muslim League’s conquest of Aligarh was immense appeal of Iqbal, his poetry, writings and speeches.
In 1946 he formally started his career as editor in Bombay and joined a pro Muslim League Daily name Iqbal. During that time he got chance to meet communists like Mirza Ashfaq Baig ( He was also from Bhopal), P C Joshi, Syed Sajjad Zaheer, Sibt e Hassan etc. He recorded his distant love with communists but he failed to do justice as usual. He penned a chapter in this book with a title “The socialist utopia: Disillusionment” and his thoughts got endorsement in the introduction yet it is largely an outsider’s view about entrench inner party struggle and that is why the editor failed to do justice with the subject.
Due to his cousin Quddus he met Ashfaq Baig and then started visiting CPI office in 1946 and had personal record about Sajjad Zaheer, Sibt e Hassan and as he was shifted to Lhore in 1948 so he remain in contact with CPP leaders who had head quarter in Lhore but he could not give us more details. "Sibt e Hassan showed a little reserve in his manner and seemed rather aloof and distant....as for as pretty women were concerned he was a charmer." A p-137-8 he narrated an interesting probably pre-partition debate regarding obscenity in PWA meeting where Sajjad Zaheer , Sibte Hassan called Mollana Hasrat Mohani "a habitual Obstructionist" because  Mollana defended pornography as a valid aspect or component of literature while Sajjad Zaheer and his associates thought it very necessary to state categorically that the use of obscenity or pornography was no part of the movement's aims. Was it a deviation from Angary? author did not discuss it. PWA used charge of obscenity against great fiction writer of the Punjab Saddat Hassan Manto in their historic November 1949 meeting and author attended that meeting too but he did not mention it too which is strange.
Other than letters from Hajra Masroor (his wife), Abdullah Malik and some articles written by others, there are two important chapters which threw light on his change of heart when he worked in Lahore at Pakistan Times (PT) and when he worked in Karachi in Dawn.
He took liberty to criticize owner of Pakistan Times (the learned statesman Mian Iftiqar u din) but failed to maintain his critical thinking about the editors and owners of other newspapers where he worked.
He discussed closure of Civil & Military Gazette in late 1940s by Liaqat Ali khan’s government in his own style. At that time there were two main newspapers (Dawn & PT) but he smartly declared that Pakistan Times was the ‘unintended beneficiary of government action’. But when he wrote the story of closure of PT he dare not to mention which media group was unintended beneficiary at that time. It showed his preferences. 

As par author it was Mian Iftikhar u din who always talk about the Punjab and its interests while analyzing Pakistani politics which pinched author strangely. He himself wrote lofty claims regarding Bhopal, a place he left in 1947 but he had expectation from a native to leave his connectivity from the land where he is living.
His analysis of Pindi Conspiracy Case of 1951 is close to Government justification as he missed importance of timing. Linking Pindi conspiracy with Kashmir issue of October 1947 rather then McCarthyism is an intelligent/intelligence wrap. Kashmir conflict was a 15 month old story but it was used, just one day before first provincial election of the Punjab by the ICS fame officers sitting in Karachi and it was a message for all opposition parties. It was a Machiavellian Trick often used by colonial masters in British India. After Objective Resolution in general and before the first public meeting of Progressive Writers Association held at Lhore in November 1949 a massive anti-communist campaign was started under the international agenda of McCarthyism. They called communists anti-religion, anti-Pakistan and even fatwas were circulated against communists and in this campaign many people were inducted i-e Aga Shorish Kashmiri of Ahrar, Muhammad Hassan Askari, Intizar Hussain, Waheed Qureshi and many more. Those who read the book " Mustaqbil Hamara Hai" written by Abdullah Malik knew very well about those who circulated fatwas and who participated in that mischievous campaign. Pindi Conspiracy was an effort of the State to make attendance in international anti-communist campaign. Learned editor himself attended PWA meeting and he was part of PT but he did not write a line in that regard but tried to justify the purge.
From 1949 till 1962 he worked in PT. Faiz Ahmad Faiz was editor but due to his arrest in Pindi conspiracy Mian Iftiqar u din, the owner of PT nominated Mazhar Ali Khan as acting editor but author was not happy with that decision. Interestingly, he himself proved that decision of Mian Sahib was correct. Mazhar proved a time testing friend of PT and its progressive policies when hard time came. In introduction Rahman rightly wrote “He (author) had to stop writing when he had just begun recalling his days at The PT where he stayed for 13 years”. General Ayub had seizure the PT on April 18, 1959 because PT was not ready to obey the military dictator. At that important time, Editor Mazahar Ali Khan had courage to resign yet the author opted for editorship. He gave many explanations and tried to hide behind professionalism but more he wrote, more he expose himself. After some time the author and editor Imroz too had to resign but both failed to understand importance of timing or they had no courage to face the challenge. When Ayub annexed the paper great Mazhar Ali Khan assembled his senior colleagues including Qasmi and the author. Mazhar uphold his credibility and self-esteem and announced his resignation. According to author, among others in this company were Ahmad Nadeem Qasmi, editor Imroz, Zuhair Siddiqi, Abdullah Malik and Hameed Akhtar . Government assured Mazhar to stay as editor but he refused. Now read what Author wrote in the book. “Now having announced his unalterable decision to quit, Mazhar asked the assembled company what their plans were…no body spoke……I broke the silence. I said as professional journalists we were helpless in the face of the forcible takeover and that we could do nothing to prevent a forced change of policy.”  So after that Qasmi continued as editor of Imroz while author worked as acting editor PT till 1962 and when Z A Sulehri entered in the scene he finally had to resigned. As Qasmi was opted brother of his wife hajra so both had personal nexus too. Interestingly while analyzing closure of PT Ahmad Ali did not mention ‘unintended beneficiary of government action against PT’. After PT, the author joined Dawn which was ruled by Altaf Hussain since 1947.  Altaf Hussain was among the power broker journalists and had considered as close ally of establishment. It was Dictator General Ayub who awarded him Hilal-e-Pakistan in 1959. In 1965 he joined Ayub’s cabinet as minister. The praise for Altaf Hussain by the author raised many questions but I think it is up to readers to decide who was who in media and politics.
There are many details regarding journalism in this book and it is an interesting study to understand why press remains in chains not only due to policies of the State but also due to pitfalls of journalists and media owners. So in this regard it is history of Pakistani journalism yet one should read it carefully. In late 1940s while in Lhore, the author worked in Punjab Union of Journalists (PUJ), a pioneer trade union organization of Pakistani journalists that later transformed into Pakistan Federal Union of Journalists (PFUJ) so he also pinpointed issues of working journalists. As SAMA has good reputation regarding high quality of editing yet this particular book is not up to its own standards. In index Altah Hussain and Altaf Hussain Hali are included in a single entry. Instead of adding letters and articles written on Ahmad Ali Khan one can write a detail biographical sketch. The author earned lot of respect during his career yet a write-up based on critical appreciation could make this book more valuable.

Memoires of Ahmad Ali Khan
By Aamir Riaz
Book               In search of sense
Pages               616
Author             Ahmad Ali Khan
Publisher         SAMA, Karachi Sindh
Price                Rs: 1200

Some more reviews
The News on Sunday
Dawn


Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...