مسلم
اکثریتی صوبوں کے حقوق
نہرو
رپورٹ(1928) سے قرار داد لاہور 23 مارچ (1940) تک
عامر
ریاض
Question of Muslim Majorities and Politics
From Nehru report (1928) till 23rd March 1940 Lhore Resolution
If you have an eye on changing circumstances since approval of Lucknow Pact (1916) in general and approval of Nehru report (1928) in particular along with Allahbad Address 1930 and Lhore Resolution 1940 and can scan results of 1920, 1923, 1926 provincial elections and finally recheck 1937 election results at provincial level then you can understand the roots of Pak India conflict well. We have to leave perceptions and tries to check and recheck facts.From Nehru report (1928) till 23rd March 1940 Lhore Resolution
Question related to rights of Muslim Majorities was as essential as the question of whole British India and there were many rationalists among various parties and in media and businesses who tried their best to resolve it. Even today, Pakistan India peace is a dream and jingoism is order of the day. If we can read original documents then we can delink ourselves from court historians for once. Nehru Report of 1928 and Allahbad Address of Allama Iqbal 1930 played an important role in making and breaking political forces and i tried to analysis both in comparison. As a matter of fact, court historians of both countries still rectangle to include original complete texts of these documents in student courses. They used selective pieces but avoid full texts. Both countries are still reluctant to discuss gray areas and do emphasize in black and white histories and even subalterns failed to deconstruct the phenomenon. There are few good examples too like kangi Dwarka Das, H M Servai, Romela Thapar, Aysha jallal, K K Aziz, Jaswant Singh, Raj Mohan Gandhi, Seri Parkash, Petric French, Peter Clark, A G Noorani, Sughata Bose, Alex von Tunzeliman, Nain Sukh, Sadat Hassan Manto, Mohit Sen, Majid Skeikh, Mollana Ubaid ullah Sindhi, but lot more work is still pending. The article is an effort to unfold last 20 year politics with a hope that we can start writing history from people's perspective in future.
سیاست
آنے والے کل پر نظر رکھنے کا نام ہے کہ سیاسی بصیرتیں رکھنے والے وہی ہوتے ہیں جو
وقت سے پہلے خبر دے دیتے ہیں۔ جب دسمبر 1930 میں علامہ اقبال نے دوبارہ دورہ ملتوی
کرکے بلا آخر الٰہ آباد جانے کا قصد کیا تو بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ علامہ
اقبال اپنی سیاسی بصیرتوں سے کام لیتے ہوئے مستقبل کی سیاست کی خبر دے رہے ہیں۔
علامہ اقبال الٰہ آباد میں پیش کردہ نہرورپورٹ کا جواب الٰہ آباد ہی میں دینا
چاہتے تھے کہ اس لیے انھوں نے لکھنو اجلاس میں سید شمس الحسن کی دعوت کو رد کیا
اور الٰہ آباد جاکر ہی نہرورپورٹ کا مفصل جواب دیا۔ بقول علامہ اقبال1930 کے اس
خطبہ صدارت میں دی جانے والی تجاویز کو لے کر وہ سب سے پہلے “نہرو کمیٹی” کے پاس
ہی گئے تھے۔ یہ وہی نہرو کمیٹی تھی جو مشہور زمانہ نہرورپورٹ پر کام کررہی تھی۔
ہماری نصابی کتب میں تو نہرو رپورٹ کو جواہر لال نہرو اور کانگرس کے کھاتے ڈالا
جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نہرو کمیٹی کے چیرمین موتی لال نہرو تھے اور اس
رپورٹ کو تیارکرنے کا فیصلہ اک آل پارٹیز کانفرنس میں کیا گیا تھا جس میں کانگرس
بھی شامل تھی۔ بڑے سائز کے 208 صفحات پر مشتمل یہ مفصل رپورٹ پڑھنے کے بعد اگر آپ
خطبہ الٰہ آباد اور 23 مارچ کی قرار داد کے اصل متن پڑھیں گے تو آپ کو خود بخود
1928 سے 1940 تک کی سیاست بارے بھی چانن ہوجائے گااور 1941 سے 1947 کے درمیان ہونے
والی سیاست کو بھی آپ ازخود سمجھ جائیں گے۔ نہرو رپورٹ اور خطبہ آلٰہ آباد میں بہت
سے موضوعات مشترک ہیں تاہم ان کے حوالہ سے جو الگ الگ موقف اختیار کیے گئے وہ ان
ترجیحات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں جن کو کانگرس و مسلم لیگ سمیت بہت سی جماعتوں
نے اپنایا ہواتھا۔ ہندو مسلم مسئلہ، زبانوں کی بنیاد پر صوبوں کی ازسر نو تشکیل،
مسلم اکثریتوں کا سوال، سول و ملٹری بیوروکریسی میں دیسی لوگوں کی شمولیت کے تناسب
میں اضافہ، پارلیمان کی بالا دستی، ووٹ کے حق کا پھیلاﺅ،
ریاستوں کا مستقبل، اقلیتوں و اکثریتوں کے کل ہند اور صوبوں میں حقوق، مرکزو صوبوں
میں اختیارات کا سوال، جداگانہ انتخابات اور معاہدہ لکھنو کی حمائیت یا مخالفت
سمیت بہت سے دیگر اہم موضوعات پر نہرو رپورٹ اور خطبہ الٰہ آباد میں تفصیلی جبکہ
14 نکات اور 23 مارچ کی قرار داد میں جستہ جستہ بحث کی گئی تھی۔ آج کا طالب علم و
محقق اگر ان تمام امور بارے مختلف نقطہ ہائے نظر کواصل متن کے ساتھ نہیں پڑھے گا
تو وہ یقینی طور پر پاکستان، بھارت اور برطانیہ کے درباری تاریخ دانوں اور انکے
مخالفین کی رائے میں الجھ کر رہ جائے گا۔ جن کتب، رپورٹوں اور اعداد وشمار کے
حوالے دیے گئے ہیں نصف صدی سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد ان کی اہمیت آج کچھ زیادہ
بڑھ چکی ہے۔
10
اگست 1928 کو موتی لال نہرو کے دستخطوں سے جاری کردہ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ آل
پارٹیز کانفرنس اس کمیٹی کی خالق ہے جس نے 19 مئی 1928 کو بمبئی میں اس کی تشکیل
کا فیصلہ سنایا تھا۔ کمیٹی میں پنڈت موتی لال نہرو کے علاوہ سرتیج بہادر سپرو، سر
علی امام، جناب پردھان، جناب شعیب قریشی، سبھاش چندر بوس، مدھورا انّے (Aney) ، ایم آر جیاکر، این ایم جوشی اور سردار منگل سنگھ شامل تھے۔
پنجاب سے اس کمیٹی میں اکثریتی مسلمان برادری میں سے نمائندہ لینے کی بجائے تعداد
میں سب سے کم برادری سے سردار منگل سنگھ کا انتخاب اپنی جگہ اک سوال ہے۔ گوردوارہ
سیاست کے موڈھی منگل سنگھ لائلپور (فیصل آباد) میں پیدا ہوئے اور 1945 تک کانگرس
کی طرف سے ممبر مرکزی مجلس قانون ساز رہے۔ جن سیاسی پارٹیوں سے رپورٹ لکھنے والوں
نے مشاورت کی ان میں مسلم لیگ، دڑاوڑ مہاجن سبھا، آل انڈیا کانگرس، قومی غیر
براہمن پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف بمبئی، مزدور کسان پارٹی بمبئی، مرکزی خلافت
کمیٹی، مرکزی سنگھ لیگ، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگرس سمیت دو درجن کے قریب جماعتیں
شامل تھیں۔
نہرو
رپورٹ لکھنے والے کل ہند سطح پر تو اکثریت کی حکمرانی کے قائل تھے مگر جن صوبوں
میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں انہیں جمہوریت بارے تحفظات تھے۔ وہ معاہدہ لکھنو
کو برقرار رکھنا چاہتے تھے جس کے تحت 1916میں پنجاب و بنگال کی مسلم اکثریت کو
ویٹج کے تکنیکی فارمولا کے تحت 50 فیصدی سے کم کردیا گیا تھا۔ یاد رہے، اس دور میں
دوہی صوبے تھے جن میں مسلم اکثریت تھی کہ سندھ بمبئی کی ماتحتی میں تھا ، صوبہ
سرحد کو صوبائی حقوق تاحال نہیں ملے تھے اور بلوچستان کو صوبہ بنانے سے انگریز
گریزاں تھے۔ لکھنو معاہدہ میں بڑی ہشیاری سے پنجاب و بنگال کی مسلم اکثریت کو 50
فیصدی سے کم کرنے کا ردعمل ہرگاہ دیکھا گیا۔ میاں محمد شفیع، علامہ اقبال، سی آر
داس، حکیم اجمل خان اور خلافت کمیٹی پنجاب نے مختلف وقتوں میں نہرورپورٹ سے قبل یہ
احتجاج رجسٹر کروادیا تھا۔ لال دین قیصر تو پنجاب میں 1926سے 56فیصدی تحریک بھی
چلارہے تھے جس کو میاں سر فعل حسین، علامہ اقبال وغیرہ کی حمائیت حاصل تھی۔ سندھ،
پنجاب، سرحد کے غیر مسلم لیڈران نہ تو سرحد کو صوبائی حقوق دلوانے کے لیے سرگرم
تھے، نہ ہی پنجاب کو اس کی عددی حیثیت کے مطابق نشستیں دنیا ضروری خیال کرتے تھے،
نہ ہی بلوچستان کو صوبہ بنوانے میں سرگرم عمل تھے اور سندھ کو تو بمبئی کے زیر
سایہ ہی رکھنا چاہتے تھے۔ بس اس مائنڈ سیٹ کا سایہ فگن نہرو رپورٹ پر بھی پڑا
تھا۔منگل سنگھ کے نہرو کمیٹی میں انتخاب کا معاملہ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ رپورٹ
کے صفحہ 45 پر اک ایسا اقرار موجود ہے جسے 1947 میں جھٹلایا گیا تھا۔ رپورٹ میں
لکھا ہے کہ لاہور اور گرداس پور مل کر ایسا مسلم زون بنتا ہے جہاں پنجابی مسلمانوں
کی تعداد غیر مسلموں کی کل تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ پنجابی مسلمانوں کے تناسب کو
%56 سے گھٹا کر 47.3 فی صد کرنے والی یہ رپورٹ خود تسلیم کرتی ہے کہ مردم شماری کے
مطابق ضوبہ پنجاب میں پنجابی مسلمان 56 فیصدی ہیں۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کے
خلاف تفصیلی بحث شامل رپورٹ ہے۔ اس حصّہ کے آخر میں لکھا ہے کہ بمبئی سے الگ ہوکر
سندھ معاشی طور پراپنے پاﺅں
پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ بلوچستان کو صوبہ بنانے کی حمائیت بھی اس رپورٹ میں نہیں
ملتی اور صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق دینے بارے بھی تحفظات۔ البتہ رپورٹ کے لکھاریوں
کو سرحد و بلوچستان میں بسنے والے غیر مسلموں کا بہت درد ہے۔ یہی نہیں بلکہ پنجاب
و بنگال میں مسلم اکثریتوں کو ان جمہوری حق دینا بھی انھوں نے گوارا نہ کیا۔
زبانوں کی بنیاد پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کے حوالہ سے تامل، بنگلہ، میراٹھی، گجراتی، سندھی وغیرہ کا تو ذکر ہے مگر پنجابی، پشتو، بلوچی، کشمیری اور اُردو کو رپورٹ کے زیرک لکھاریوں نے کمال ہشیادی سے ”ہندوستانی“ کے کھاتے ڈال دیا۔
مرکز کو تمام تر اختیارات دینے کی حمایتی نہرورپورٹ کامل آزادی کی بجائے ڈومینین سٹیٹس کو ترجیح دیتی تھی۔ علامہ اقبال کا نام لکھے بغیر رپورٹ میں ان کی اس تجویز پر بحث کی گئی ہے جس میں علامہ اقبال نے سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو اک اکائی مانتے ہوئے نیم خود مختاری دینے کی حمائیت کی تھی۔
زبانوں کی بنیاد پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کے حوالہ سے تامل، بنگلہ، میراٹھی، گجراتی، سندھی وغیرہ کا تو ذکر ہے مگر پنجابی، پشتو، بلوچی، کشمیری اور اُردو کو رپورٹ کے زیرک لکھاریوں نے کمال ہشیادی سے ”ہندوستانی“ کے کھاتے ڈال دیا۔
مرکز کو تمام تر اختیارات دینے کی حمایتی نہرورپورٹ کامل آزادی کی بجائے ڈومینین سٹیٹس کو ترجیح دیتی تھی۔ علامہ اقبال کا نام لکھے بغیر رپورٹ میں ان کی اس تجویز پر بحث کی گئی ہے جس میں علامہ اقبال نے سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو اک اکائی مانتے ہوئے نیم خود مختاری دینے کی حمائیت کی تھی۔
اس
تجویز کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے جس تمسخر، تعصب اور رعونت کا اظہار رپورٹ میں
کیا گیا اس سے رپورٹ کے لکھاریوں کی چلاک علمیت کا بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے۔ ڈھائی
سال بعد لکھا جانے والا خطبہ الٰہ آباد نہرورپورٹ کا مفصل جواب بھی ہے اور راہ عمل
بھی۔ خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے واضح طور پر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی،
سرحد کو مکمل صوبائی حقوق دینے، بلوچستان کو صوبہ بنانے اور پنجاب و بنگال کے
مسلمانوں کو عددی تناسب کے حوالہ سے انکا جمہوری حق دینے کی حمائیت کی تھی۔ یہی
نہیں بلکہ اس تاریخی دستاویز میں علامہ نے مذہب، قوم پرستی اور جدیدیت میں نئے
رستے تلاش کرنے کی طرف اشارے بھی کیے، پنجابیوں پٹھانوں کی انڈین برٹش فوج میں بڑھ
چکی تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرنٹیر پالیسی میں ترمیم و اضافہ کے موضوع کو زیر
بحث بھی لائے اور کوسٹل (ساحلی) پالیسی بارے عدم اطمینان بھی ریکارڈ پر لائے تھے۔
نہرو کمیٹی کے اراکین ہی کیا، بہت سے اہم مسلم لیگی لیڈروں کو بھی 1930 کی دہائی
کے پہلے وسط تک علامہ کے خطبہ کی حقانیت سے کما حقہ آگاہی نہیں تھی۔ تاہم 1937 کے
انتخابات کے نتائج کے بعد بہت سے لوگوں کو مسلم اکثریتی صوبوں کے کلیدی کردار بارے
کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔
23
مارچ 1940 کی قرارداد پر خطبہ الٰہ آباد کا نقش سب سے نمایاں تھا اور یاد رکھنے کی
بات یہ ہے کہ لاہور میں منظور کی جانے والی اس قرار داد کے لکھاریوں کے وہم و گمان
میں بھی نہیں تھا کہ کانگرس والے اکثریتی مسلم صوبوں کی خود مختاری کے مطالبہ کی
مقبولیت سے خائف ہوکر اس مسئلہ کو پنجاب و بنگال کی مسلم و غیر مسلم کی بنیاد پر
انتقال آبادی کے سوال سے جوڑ دیں گے۔
قرار داد لاہور میں دیے گئے مطالبات کو اسقدر پذیرائی ملی کہ اپریل 1942 میں خود کانگرس پنجاب کے صدر باغبان پورہ (لاہور) کے میاں افتخارالدین اور مدراس کے چکروتی راج گوپال اچاریہ اس کے اسیر ہوئے۔ کانگرسی کی ورکنگ کمیٹی میں راجہ جی کی قیادت میں 15 کانگرس ممبران بشمول صدر کانگرس پنجاب نے مسلم اکثریتوں کو جمہوری حق دینے کی حمائیت میں قرارداد جمع کروائی جو رعونت کی وجہ سے مسترد کردی گئی۔ یہی نہیں 1943 میں ہونے والی پہلی کانگرس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے جو ادھیکاری تھیسس اپنایا اس میں مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو اولیت حاصل تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے 14 اگست 1947 تک اپنے موقف میں تبدیلی نہ کی۔ جب کانگرس یک و تنہا رہ گئی تو اس نے مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو مذہبی بنیاد پر کی جانے والی انتقال آبادی کے ساتھ مشروط کردیا کہ راجہ جی کے نواسے راج موہن گاندھی نے پنجاب بارے لکھی اپنی کتاب میں آل انڈیا کانگرس کی وہ قرار داد بھی چھاپی ہے جس میں سیکولر کانگرس پنجاب و بنگال کی مذہبی تقسیم کا مطالبہ مارچ 1947 میں کررہی تھی۔یاد رہے یہ تین جون کے معاہدے سے پہلے کی بات ہے۔ ایسے میں کانگرس یہ بھی بھول گئی کہ اس تقسیم سے پنجاب و بنگال کے غیر مسلم (ہندو اور سکھ) بھی متاثر ہوں گے۔
قرار داد لاہور میں دیے گئے مطالبات کو اسقدر پذیرائی ملی کہ اپریل 1942 میں خود کانگرس پنجاب کے صدر باغبان پورہ (لاہور) کے میاں افتخارالدین اور مدراس کے چکروتی راج گوپال اچاریہ اس کے اسیر ہوئے۔ کانگرسی کی ورکنگ کمیٹی میں راجہ جی کی قیادت میں 15 کانگرس ممبران بشمول صدر کانگرس پنجاب نے مسلم اکثریتوں کو جمہوری حق دینے کی حمائیت میں قرارداد جمع کروائی جو رعونت کی وجہ سے مسترد کردی گئی۔ یہی نہیں 1943 میں ہونے والی پہلی کانگرس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے جو ادھیکاری تھیسس اپنایا اس میں مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو اولیت حاصل تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے 14 اگست 1947 تک اپنے موقف میں تبدیلی نہ کی۔ جب کانگرس یک و تنہا رہ گئی تو اس نے مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو مذہبی بنیاد پر کی جانے والی انتقال آبادی کے ساتھ مشروط کردیا کہ راجہ جی کے نواسے راج موہن گاندھی نے پنجاب بارے لکھی اپنی کتاب میں آل انڈیا کانگرس کی وہ قرار داد بھی چھاپی ہے جس میں سیکولر کانگرس پنجاب و بنگال کی مذہبی تقسیم کا مطالبہ مارچ 1947 میں کررہی تھی۔یاد رہے یہ تین جون کے معاہدے سے پہلے کی بات ہے۔ ایسے میں کانگرس یہ بھی بھول گئی کہ اس تقسیم سے پنجاب و بنگال کے غیر مسلم (ہندو اور سکھ) بھی متاثر ہوں گے۔
مئی
1946 کو انگریز حکمرانوں کا پیش کردہ کا بینہ مشن پلان بھی خطبہ الٰہ آباد اور 23
مارچ 1940 کی قرار داد کی فتح تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے مسترد کر ڈالا۔
آج 2016 میں 23 مارچ 1940 کو گذرے 76 برس ہونے کو ہیں اور پاک وہند کے امن پسند
لوگ بھارت و پاکستان میں امن کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
اگر نہرورپورٹ کے لکھاری علامہ کی بات مان لیتے، کانگرس والے میاں افتخار الدین اور راجہ جی کی بات پر دھیان دیتے اور مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو کانگرس مذہبی بنیاد پر انتقال آبادی سے نتھی نہ کرتی تو شاید اس خطہ کی تقدیر آج سے کہیں مختلف ہوتی کہ دفاع کے نام پر ہم جو زرکثیر ضائع کررہے ہیں وہ اس خطہ کے عام لوگوں کی تقدیر بدلنے پر خرچ ہوتا۔ بس23 مارچ کو اس لیے بھی یاد رکھیں کہ جمہوری حقوق سے اجتناب کا سب سے زیادہ نقصان خود کو ہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی طاقت زبردستی اکثریت کو دبا نہیں سکتی۔ آخری بات یہی ہے کہ سیاست میں چلاکیا ںوقتی طور پر مددگار ہوسکتی ہیں مگر آخری نتیجہ میں وہ جلد یا بدیر طشت ازبام ہوجاتی ہیں۔
اگر نہرورپورٹ کے لکھاری علامہ کی بات مان لیتے، کانگرس والے میاں افتخار الدین اور راجہ جی کی بات پر دھیان دیتے اور مسلم اکثریتی صوبوں کے جمہوری حقوق کو کانگرس مذہبی بنیاد پر انتقال آبادی سے نتھی نہ کرتی تو شاید اس خطہ کی تقدیر آج سے کہیں مختلف ہوتی کہ دفاع کے نام پر ہم جو زرکثیر ضائع کررہے ہیں وہ اس خطہ کے عام لوگوں کی تقدیر بدلنے پر خرچ ہوتا۔ بس23 مارچ کو اس لیے بھی یاد رکھیں کہ جمہوری حقوق سے اجتناب کا سب سے زیادہ نقصان خود کو ہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی طاقت زبردستی اکثریت کو دبا نہیں سکتی۔ آخری بات یہی ہے کہ سیاست میں چلاکیا ںوقتی طور پر مددگار ہوسکتی ہیں مگر آخری نتیجہ میں وہ جلد یا بدیر طشت ازبام ہوجاتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment