Friday, March 25, 2016

Flip-flop of Qudrat Ullah Shahab and Twists by Ansar Abbasi شہابیاں تے انصاریاں



Flip-flop of Qudrat Ullah Shahab and Twists by Ansar Abbasi

شہابیاں تے انصاریاں
عامر ریاض


نظریہ کی حفاظت کے لیے حقائق کو نکال باہر کرنا یا توڑنا مروڑنا لازم کہ انصار عباسی کا حالیہ کالم اس کی عملی تصویر ہے۔ حقائق بمعہ حوالہ جات یہاں شیر کر دیے جائیں گے اور کالم بھی کہ فیصلہ تہاڈے ہتھ وچ۔ پڑھ لو تے آپ سوچو کہ ہمارا مہان میڈیا اور اس کے کالم نویس تاریخی حقائق کو کیوں من مرضی سے توڑتے مروڑتے ہیں۔
پیچھلے دنوں انتظار حسین اور احمد علی خان پر کچھ لکھا تھا کہ اب یہ تحریر بھی اک صحافی ہی سے متعلق ہے اور اسی تسلسل میں بھی۔ کالم نویس نے جس “شہاب ثاقب” کو “پیر مغاں” مان کر کالم لکھا ہے پہلے ان بارے چند باتیں کر لیں پھر ان کے مہان خیالات کا ذکر بھی ہو گا۔
1917 میں بمقام گلگت میں پیدا ہونے والے ان انبالوی حضرت کے والد کو علی گڑھ سے گلگت کے دور دراز علاقہ میں کیوں جا مقیم ہونا پڑا اس بارے بھی حضرت نے اپنی ضخیم کتاب “شہاب نامہ” میں کوئی اشارہ بھی نہ کیا۔ البتہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ 1894 میں انگریز سرکار نے جو ڈیورینڈ لائن بنانی شروع کی تھی وہ چترال، گلگت، بلتستان کے دروں سے شروع ہوئی اور پاکستان، افغانستان اور ایران کی اس تکونی سرحد تک جاتی ہے جو بلوچستان میں ہے۔ ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد 1901میں صوبہ سرحد اور پھر فاٹا کا قیام بھی اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ یہی وہ پالیسی تھی جس کے تحت 1904 میں تبت پر فرانسس ینگ ہیسبنڈ نے قبضہ کیا اور 1914 میں برما سے ہمالیہ کے پہاڑوں میں گرہ پامیر (Pamir Knot) تک جانے والے رستہ تک میک ماہون لائن بنائی۔ ان کاروائیوں کی وجہ سے موجودہ گلگت بلتستان کے خطہ کی اہمیت انگریز سرکار کے لیے دیدنی تھی۔ 
پچھلے دنوں Luv Puri نے کشمیر بارے جب اک مختصر مگر اہم کتاب Across the LoC لکھی تو اس میں 1929 کے اس خفیہ معاہدہ کا ذکر بھی تھا جو ریاست جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ اور برٹش سرکار میں ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے مطابق انگریز سرکار نے گلگت بلتستان کا علاقہ 50 سال کے لیے ریاست کشمیر سے لے لیا تھا کہ ان کے کیا ارادے تھے یہی وہ راز ہے جو بہت سے بندگان خدا اور گروہوں کو گلگت بلتستان میں 19 ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے پہلے نصف میں بسنے والوں سے پوچھا جاتا ہے
۔British government finally finished that project just few days back from 14-August1947
یہی نہیں بلکہ 1933 میں انڈین کمیونسٹوں کے بارے چھپنے والی خفیہ رپورٹ نما کتاب “انڈیا اور کمیونزم” میں بھی مشرقی ترکستان میں جس اسلامی تحریک کا ذکر ہے اس سے محض اس لیے انگریز سرکار خوش نہیں تھی کہ خوجہ نیاز صاحب بالشیکوں کے حامی بتائے گئے تھے۔ اگر آپ نے رولٹ کمیٹی رپورٹ کی مفصل دستاویز اور 1933 کی کمیونسٹوں بارے رپورٹ پڑھی ہو تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انگریز سرکار روسیوں اور جرمنوں سے نمٹنے کے لئے 19 ویں صدی کی آخری دو عشروں سے متحرک تھی۔ یہی وہ بات ہے جو ایم آئی6 کا مصنف کیتھ جفری بھی لکھتا ہے۔
اسلام سے ان کی محبت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ جن خطوں میں وہ روسیوں، جرمنوں کو روکنا یا رگیدنا چاہتے تھے ان میں مسلم اکثریتوں کا راج تھا۔ اس سیاست کے تیز ہوتے دور میں شہاب صاحب کے والد علی گڑھ سے گلگت چلے گئے اور بقول اک سوانح نگار، شہاب کے والد وہاں ڈوگرہ راج میں گورنر تھے جب شہاب 1917 میں گلگت سے میں پیدا ہوئے۔  “سیاسی اسلام” سے محبت سے قبل محض 16 سال کی عمر میں شہاب ریڈرز ڈائجسٹ لندن کا مقابلہ جیت چکے تھے کہ جموں کے پرنس آف ویلز کالج اور لاہور کے گورنمنٹ کالج سے ہوتے ہوئے 1940 کے لگ بھگ شہاب انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔
1943 میں شہاب کو بطور آئی سی ایس افسر بنگال میں کام کا موقع ملا کہ جب یہ صوبہ بدترین قدرتی آفات کی لپیٹ میں تھا۔ اس وقت اپنے اختر حمید خان بھی انہی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنگال میں بطور آئی سی ایس افسر کام کرتے رہے۔ شہاب کے برعکس، اختر حمید خان نے اس تجربہ کے بعد بیورو کریسی سے تو بہ تائب کیا اور پھر اس ادارے کا کبھی رخ نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ افسران غریبوں کے نام پر آنے والی امداد سے گلچھرے اڑاتے ہیں اور بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔
شہاب صاحب نے بھی آئی سی ایس افسران کی بدعنوانیوں کا ذکر کیا مگر وہ خود کن باتوں کے گواہ تھے اس کی بجائے شہاب نامہ میں وہ لارڈ ویول، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کا نام لے کر اپنا قد بڑھانے کی سعی لا حاصل ہی کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کی ترجیحات کیا رہیں اس کا ثبوت خود شہاب نامہ میں حسن عسکری کے خط میں موجود ہے جو موصوف نے ممتاز شریں کو جولائی 1948 میں لکھا تھا۔ اس خط میں عسکری موصوف نےترقی پسندوں کے خلاف “جہاد” میں شرکت پر افسانہ نویس قدرت اللہ شہاب کی کتاب “یا خدا” کا دیباچہ لکھنے پر ممتاز شریں کو خراج تحسین پیش کیا۔
حسن عسکری کے خط کو پڑھ کر ایک دفعہ پھر مجھے انتظار حسین پر لکھا اپنا مضمون انتظار ختم ہوایاد آ گیا جس میں قیام پاکستان کے بعد برپا ہونے والے اس ترقی پسند مخالف رجحان کا ذکر تفصیل سے ہے جس کے کئی ایک “پہرے دار” اور “امام” تھے۔
حسن عسکری اپنے خط کا اختتام ان جملوں پر کر رہے ہیں “خیر خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ذہنوں پر سے ترقی پسندی کی دھند تو چھٹنے لگی” بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ عسکری صاحب مزید لکھتے ہیں ”کراچی کا ادبی ماحول کیا ہے۔ کتنے لوگ پاکستانی ہیں اور کتنے ترقی پسند؟“ P332
ایک طرف عسکری صاحب یورپی ادب کو متعارف کروانے والوں کے باوا آدم، اختلافات کو وجہ تضاد نہ بنانے کے دعویدار تو دوسری طرف مخالفوں کو پاکستانی ماننے سے بھی انکار۔ یہی وہ تضاد ہے جس میں ہم بوجوہ نو آبادیاتی دور سے “سرشار” چلے آ رہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھنا چاہتے کہ اسلام اور پاکستانیت کے نام پر ہم کس کس کا ایجنڈا چلاتے رہے ہیں۔ خیر اس مائنڈ سیٹ پر پھر کبھی بات ہو گی کہ اس وقت تو شہاب صاحب کے اک واقعہ کو بنیاد بنا کر لکھے جانے والے کالم تک ہی محدود رہنا چاہیے۔
پاکستان بننے کے بعد شہاب صاحب مختلف اعلیٰ عہدوں پر رہے کہ پھر غلام محمد کے وسیلہ سے گورنر جنرل کے سیکرٹری بنے۔ غلام محمد کو سکندر مرزا کھا گئے اور سکندر مرزا کو ایوب خان نے چلتا کر دیا مگر شہاب غلام محمد سے ایوب خان تک اس عہدہ پر رہے۔ ان کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی تھی اس بارے تو حضرت نے بتانا نہیں تھا۔ البتہ غلام محمد پر کیچڑ اچھال کر وہ اپنی پاک دامنی کا ثبوت پیش کرنے کی ناکام کوششیں شہاب نامہ میں کرتے رہے۔ صفحہ 701 سے 704 تک انہوں نے جو قصہ لکھا وہ بذات خود تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔ ان صفحات کو سکین کرکے یہاں اس لیے دیا جا رہا ہے کہ موصوف انصار عباسی نے اسے من مرضی کی کانٹ چھانٹ کے ساتھ اپنے کالم کی زینت بنایا ہے۔ آپ کالم اور یہ صفحات پڑھ لیں آپ کو فرق صاف نظر آجائے گا۔




شہاب کی بیوی کے جملے آپ خود پڑھ لیں کہ بیوی کو معلوم تھا بیورو کریٹ گرجتے کہیں اور برستے کہیں اور ہیں۔ شہاب کو تو ڈر تھا کہ کہیں سچ مچ استعفیٰ دینا ہی نہ پڑ جائے تبھی ان کی بیوی نے کہا “آپ صورتحال سے نمنٹ لیں گے یا میں ساتھ چلوں” ۔ مگر ایسے جملے کالم میں شامل کرنے سے وہ تاثر کہاں بننا تھا جس کے تحت اسے لکھا گیا تھا۔
شہاب نے جو واقعہ لکھا ہے و ہ ایوب خان کے ابتدائی دور کا ہے یعنی اکتوبر 1958 یا 1959 کے ابتدئی ماہ ہوں گے۔ حضرت نے تاریخ نہیں لکھی مگر تحریر و ترتیب خود یہی بتا رہی ہے۔ موصوف اکتوبر 1958 سے 1962 تک اسی عہدے پر براجمان رہے اور ان کا استدلال ہے کہ ایوب خان کو انہوں نے اپنے استعفیٰ کی دھمکی اور اعلیٰ ذہانت کی بدولت “جمہوریہ پاکستان” کی بجائے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” استعمال کرنے پر راضی کر لیا تھا۔ اب ذرا آپ 1962 کے آئین کی کہانی پڑھیں جو مئی 1962 میں آیا تو اس میں ایوب خان نے من مرضی سے اضافہ و ترامیم کیں اور پھر اسے نافذ کر دیا۔ اس آئین میں بھی “جمہوریہ پاکستان” ہی لکھا تھا نہ کہہ اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

شہاب صاحب کو تو 1962 میں نیدر لینڈ کی سفارت مل چکی تھی کہ حضرت کو پہلے ہی نکرے لگایا جا چکا تھا۔ اکتوبر 1962 میں بھارت چین لڑائی کے موقعہ پر شہاب کا “ایمان” ایک دفعہ پھر تازہ ہوا تھا کہ حضرت ایوب خان کو کشمیر پر چڑھ دوڑنے کے مشورے دے رہے تھے اور حوالہ کے لیے کسی چینی سفارت کار کے ذاتی پیغامات کا ذکر بھی شہاب نامہ میں موجود ہے۔ ہوسکتا ہے ان کی انہی حرکتوں کے باعث انہیں نیدرلینڈ بھیج دیا ہو۔ خیر جب 1962 کا آئین منظور ہو گیا اور اس میں لفظ جمہوریہ ہی تھا تو موصوف کا وہ دعویٰ کہاں گیا جو انھوں نے شہاب نامہ میں کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1963 تک 1962 کے آئین میں جمہوریہ پاکستان ہی لکھا جاتا رہا۔ البتہ دسمبر 1963 میں 1962 کے آئین میں پہلی ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم سے قبل کس کس نے “جمہوریہ” کو “اسلامی جمہوریہ” میں تبدیل کروانے کے لیے زور لگایا اس بارے ابھی مورخ کو محنت کرنا ہوگی۔ تاہم 1962 کے آئین میں کی جانے والی پہلی ترمیم اس لڑائی کا واضح ثبوت بھی ہے اور شہاب و عباسی کے بیان کردہ حقائق کے غلط ہونے کی تصدیق بھی۔ شہاب نامہ کو پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید لارڈ کلائیو کی فتح بھی شہاب نے کروائی تھی اور میکالے کے مقالہ کو بھی شہاب ہی نے لکھا تھا۔ پاک بھارت جنگ کے بعد البتہ شہاب کی گڈی دوبارہ اڑنے لگی اور موصوف کو نیدرلینڈ سے بلواکر 1966 میں انفارمیشن کے سنگھاسن پر بٹھادیا گیا۔ اب وہ اپنی تمنا پوری کرنے کے لیے سرگرم ہوئے کہ جس کا بڑا ثبوت بطور چیئرمین ادارہ نصابیات اسلامی جمعیت طلباءکے صدر (ناظم) کو لکھا وہ خط ہے جس کے تحت کشمیر کے جہاد کی تیاریاں اب غیر فوجی سطح پر کی جانی تھیں۔ اس بارے پھر سہی، کہ یہ تحریر صرف کالم تک ہی محدود رہے تو بہتر ہے۔



Another concocted story written by one of the member of same group Mr Mumtaz Mufti of Batala

 Page 501-3 Alukh Nagrri 

الکھ نگری میں ممتاز مفتی نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہئے ، انھوں جب شہاب سے اس کی وجہ پوچھی تو شہاب کا جواب تھا:
"اسلامی جمہوریہ " ہونے سے پاکستان کو مذہبی نہی بلکہ دنیاوی فائدہ پہنچے گا


Manzor Qadir remained in office as cabinet minister till June 1962 yet in the original 1962 constitution the word for country was Republic of Pakistan. As par Hamid Khan , the lawyer Bengali members of 1962 assembly raised voice for Islamic status in the name (Constitutional and Political History of Pakistan ) but he did not give any reference. 

Reading all the stories spread by Shahab & co and picked recently by Abbasi & co looks more tricky and one can understand why they are hiding facts?

Another link to check 1962 Constitution Original document

PAKISTAN: CONSTITUTIONAL ISSUES IN 1964 RALPH BRAIBANTI

there was a demand in the assembly and outside the assembly that the title should be the Islamic Republic of Pakistan


Shahab 1

Ansar Abbasi column

Shahab 2


No comments:

Post a Comment

Punjab & Iqbal

وسیب تے وسنیک علامہ اقبال تے پنجاب عامر ریاض پنجاب تے پنجابی اوہ دو اکھاں جے جس پاروں اساں پنجابی عوام، پنجاب دے وسنیکاں اتے پنجابی وس...