In memory of Qalib e Ali Sheikh
29 August 1939
21 March 2016
Here we will try to publish views and news about Q A Sheikh who died few days back in Lhore. I met his wife first time when we visited his home next day after his death. Professor Zafar Ali Khan, Mr Mansor Ahmad , Liaqat Ali of Takhliqat, Rana Abdur Rahman, M Sarwar, Professor Aziz u din , Pervaiz Majid and myself were sitting when his wife admitted that "oh chandy san ky meen party vich unhaan dy naal kum karaan par meenu gharoon nikalna changa nahi lagda si". I enjoed a long association with him during the times of Awami Jumhori Forum (www.ajfpk.org) from 2003 till 2012. Read a piece written by Kashif Bukhari and in near future i will add more. Those who want to share their experiences can send their writing/audio messages at aamirriaz1966@gmail.com
Pervaiz Majid and Qalib ali sheikh editing Awami Jumhori Forum at Newline , E 3,8 Cavalry grounds, Lhore in 2011
AJ Forum organized a program in memory of Professor Khalid Mahmood in 2011
......آخری مورچے کا سپاہی
شیخ جی کی ایک شام ادھار تھی میری طرف۔ ایک دن بحٽ ہو گئ شیخورہ ضلع کب بنا، شیخ جی کا کہنا تھا 47 سے پہلے،میں نے اختلاف کیا اور ایک'شام'کی شرط لگ گئ ۔شرط میں ہار گیا مگر شام ادھار رہ گئ ۔ویسے تو شیخ جی سے بحٽ کرنا کسی کم ہمت کا کام نہیں مگر وہ کمال نرمی سے کہتے،"یارا وہ شام کتھے؟" شیخ جی ویسے تو سیاست خاص کر لیفٹ اور کیمونزم پہ بات کرتے ہوے کسی کی نہ سنتے۔میں نے ٹریڈ یونین کے حوالے سے ایک جید لیڈر کی بات کی تو ایک خاص لہجے میں بولے " اوندی۰۰۰۰۰۰اوہنوں کی پتہ"۔گالی شیخ جی کی شخصیت کا جزوِ اعظم تھا۔ ایک بار مجھے کہا "اوۓ ۰۰۰۰۰ تیری جمہوریت وچ، اوۓ کیمونسٹاں دا جہموریت نال کی تعلق"۔ مخل میں دبنگ آہنگ سے گفتگو اور کسی کو خاطر میں نہ لاتے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر لینن بھی ان سے بحٽ کرتا کو اسے ٹوکتے،" او ٹھر جا یار ۰۰۰۰۰تیری۰۰۰تینوں کی پتہ"۔شیخ جی کا وسیع مطالعہ ان کے ٹھوس دلائل کی بیناد تھا۔ عوامی جمہوری فورم کی اشاعت کے دروان پرویز مجید کے ساتھ ان کی تلخ و ترش ہمیں اک لمحے کو پریشان کر دیتی مگر اگلی بار پھر گفتگو کا سلسلہ گزشتہ سے پیوستہ ہو جاتا۔رسا لے کی تیاری کے دوران بحٽ سب سے ذیادہ عامر ریاض کو کھلتی کیوں ایڈیٹر کی حیٽیت سے رسالے کی بر وقت تیاری اس کے ذمہ تھی۔ان کے لکھے مضامین کی پروف ریڈنگ جوکھم کام تھا کیوں ان کی لکھای اورحاشۓ پڑھنا اور غلطیاں لگانا کمپوزر کا امتحان ہوتا۔ جب دوستوں نے نظریاتی سیاست کو revisit کرنا شروع کیا تو شیخ جی لنین کی نیو اکنامک پالیسی (NEP) سے لیس میدان میں اترے اور بحٽ میں تو ان کا ثانی نہیں تھا۔ یوں وہ اس مورچے کے آخری سپاہی کے طور پر ڈٹ جاتے۔ آج لگتا ہے وہ مورچہ خالی ہو گیا،کہ آخری مورچہ پہ سپاہی تو اور بھی ہوں گے مگر شیخ جی جیسا ٹھوس مطالعہ اور دبنگ لہجہ کس کو میسر۔ love you شیخ جی۔اونج تے اوہناں دی سنگت کئ شاماں لنگیاں پر او شام جیڑی میں ہاریا ساں اوہ تےرہندی رہ گئ تے شیخ جی دی حیاتی دی شاماں پے گئاں ، ہنُ تے "جا او یار حوالے رب دے"
No comments:
Post a Comment